بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جاری بیان میں کہا گیا ہےکہ بلوچ قوم پر گزشتہ دو دہائیوں سے جاری مظالم اور قتل و غارت گری کے خلاف اس وقت بلوچستان بھر میں غم و غصہ شدت سے موجود ہے حالیہ لانگ مارچ تحریک میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان میں اس وقت لوگ ریاستی تشدد اور دہشتگردی سے کتنا تنگ آ چکے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ریاست کو اپنے رویے میں تبدلی لانے کی ضرورت ہے ورنہ بلوچ قوم اس سے بھی شدت سے مزاحمت کا راستہ اختیار کرے گا۔ سی ٹی ڈی فورس کو تشکیل دے کر جس طرح لاپتہ افراد کو فیک انکاونٹر میں قتل کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا ہے اگر اس کو نہ روکا گیا تو ریاست ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ افراد کو قتل کرے گی اس لیے ان مظالم کے خلاف بلوچ کے پاس مزاحمت کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ لانگ مارچ اس شعوری فیصلہ کا حصہ ہے کہ بلوچ قوم اب مزید ریاستی تشدد اور دہشتگردی قبول نہیں کرے گی۔
مزید کہاکہ ریاست لانگ مارچ کے سامنے جتنی زیادہ رکاوٹیں ڈالے گی بلوچ قوم مزید شدت سے ابھر کر ان کا مقابلہ کرنے آگے آئے گی۔ ریاست خضدار سے شال تک اور اب پھر سے ڈی جی خان بھر میں لانگ مارچ کو روکنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے آزما رہی ہے۔ ڈی جی خان سے بے گناہ اور معصوم طالب علموں اور تونسہ سے ذلفکار کی جبری گمشدگی اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست بلوچوں کے پرامن جدوجہد سے مکمل بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے اور اس جدوجہد کا ناکام کرنے کیلئے ہر طرح کے حربے آزما رہی ہے ان کا مقابلہ کرنے کیلئے بلوچوں کو مزید متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ اس وقت لانگ مارچ کا پڑاو کوہلو میں ہے اور آج شام بھی کوہلو میں گزارا جائے گا جبکہ کل ڈی جی خان کیلئے لانگ مارچ روانہ ہوگی۔ کوہلو و گرد و نواح کے باشعور بلوچوں سے اپیل کرتے ہیں کہ کافلے کے ساتھ جڑ کر ڈٰی جی خان کی طرف لانگ مارچ کو پہنچائیں کیونکہ ایک قومی طاقت سے ہی ہم ان ریاستی رکاوٹوں کو دور کر سکتے ہیں۔ جبکہ بھارکان بھر کے عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کل لانگ مارچ کو ویلکم کرنے اور اس کا ساتھ دینے کیلئے اپنے گھروں سے نکلیں کیونکہ یہ صرف کچھ خاندان کی جدوجہد نہیں بلکہ اس میں مکران سے لیکر کوہ سلیمان تک سب بلوچوں کا درد اور اذیت شامل ہے۔ ریاست نے آج مکران سے لیکر ڈی جی خان تک ہر گھر کو ماتم میں تبدیل کر دیا ہے اس لیے ان مظالم کے خلاف ایک منظم جدوجہد کی ضرورت ہے جو آج لانگ مارچ کی صورت میں جاری ہے۔
بیان کے آخر میں ریاست کو پیغام دیتے ہیں کہ سی ٹی ڈی اور ڈیتھ اسکواڈز جیسے فورس کو غیر مسلح کرکے بلوچستان میں جاری نسل کشی بند کریں اور لوگوں کو اٹھانے اور قتل کرنے کا یہ سلسلہ ختم کریں کیونکہ آج بلوچ جھاگ چکا ہے اور وہ اب مزید ایسی بربریت کسی بھی صورت قبول نہیں کرے گی۔ بلوچ قوم نے لانگ مارچ کی صورت میں مکران سے جی ڈی خان تک ریاست کو پیغام پہنچایا ہے کہ بلوچ اس ریاستی دہشتگردی سے تنگ آ چکے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے لانگ مارچ کا حصہ بن کر ثابت کر دیا ہے کہ بلوچوں کو خاموش کرانے کی تمام ریاستی پالیسیاں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں۔ کل لانگ مارچ کو ڈی جی خان تک ہر حال میں پہنچایا جائے گا اگر ریاست نے تشدد کی پالیسی استعمال کی تو اس کے خلاف بلوچستان اور پورے پاکستان بھر میں شدت سے سیاسی ردعمل دی جائے گی۔