شہید جنرل استاد اسلم بلوچ کی پانچویں برسی کی مناسبت سے
تحریر: اصغر شاہ
دی بلوچستان پوسٹ
غلام ممالک میں عظیم ہستیاں وہ ہوتی ہیں، جو اپنی آزادی، خوشحالی، شان و شوکت، مان و مریادھا کے لیے مسلسل اور مستقل جدوجہد کرتی ہیں اور وقت آنے پر اپنی بے مثال اور لازوال قربانیاں اور شہادتیں دے کر اپنی قوموں کو آزادی اور خوشحالی سے ہمکنار کرتی ہیں۔
استاد اسلم بلوچ بھی بلوچ وطن اور قومی تحریک میں ایسے ہی ایک مزاحمتی کردار تھے۔ جنہوں نے اپنی شعوری، معیاری اور مقداری کاوشوں سے بلوچ مزاحمتی تحریک میں نہ صرف نئے رجحانات، جدت اور شدت پیدا کی بلکہ اسی راستے پر مستقل مزاجی سے چلتے ہوئے شہادت کا عظیم رتبہ بھی حاصل کیا۔
ویسے تو یہ بلوچ قوم کی پانچویں مزاحمتی تحریک ہے، جو انگریزوں کی طویل غلامی کے بعد 27 مارچ 1948ع کو ریاست قلات (بلوچستان) پر پاکستانی قبضے کے خلاف شروع ہوئی اور اب بھی جاری ہے۔ لیکن اس پانچویں مزاحمتی تحریک کی خوبصورتی اور خصوصیت یہ ہے کہ اس تحریک نے تقریباً پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور بلوچ قوم کی تمام پرتیں اس تحریک میں شامل ہو چکی ہیں۔
انقلاب کے لیے چار بنیادی اور اہم چیزیں ہوتی ہیں۔
1. فکر (نصب العین)
2. تنظیم
3. جدوجہد
4. بے لوث قیادت
جب کسی بھی قوم اور تحریک میں وحدتِ فکر اور ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے تو عملی (مزاحمتی) وحدت اور ہم آہنگی کا پیدا ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ دیانتدار اور مخلص قیادت اس کو ایک مضبوط اور منظم تنظیمی ڈھانچہ دے کر انقلاب کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ فکر، عمل، تنظیم اور قیادت کا جدلیاتی تعلق اور مکینزم ہوتا ہے جو دنیا کے تمام انقلابات میں استعمال اور کامیاب ہوتا رہا ہے۔
آج ایک طرف بلوچ مزاحمتی تحریک اپنے فکری، نظریاتی اور تنظیمی مراحل طے کر کے جنگ کے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے تو دوسری طرف پنجاب سامراج ہے جو اپنی تمام تر ریاستی وحشت، دہشت اور درندگی کے ساتھ اس کے سامنے ہے۔ ہزاروں بلوچ گرفتار، شہید اور بے گھر ہوچکے ہیں لیکن بلوچوں کی جدوجہد ختم ہونے کے بجائے بڑھتی ہوئی شدت اور حیران کن حملوں کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔
پاکستان کے اتحادی چین پر دلیرانہ فدائی حملوں کے بعد چین کو بھی اپنے اربوں ڈالر سیپک اور دیگر منصوبوں میں ڈوبتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ یہ سب اس لئے ممکن ہوا ہے کہ بلوچ قوم 21ویں صدی کی ان دو دہائیوں میں اپنے وطن اور مزاحمت کی پکار کو قبول کرتے ہوئے اپنی ثابت قدم اور مضبوط لیڈرشپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے۔ کیوبا کے انقلابی رہنما فیڈل کاسترو نے کیا خوبصورت بات کہی تھی: ’’جب لوگ اپنی آزادی حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہوتے ہیں تو وہ اس طرح بھی لڑتے ہیں کہ ہوائی جہازوں پر پتھر پھینکتے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے ٹینکوں کو الٹ دیتے ہیں۔‘‘
استاد اسلم بلوچ جہاں اپنی ذات اور قومی حوالے سے انتہائی خوددار شخصیت کے مالک تھے وہیں وہ ایک انتہائی مخلص، دیانتدار، سچے اور بہادر جنرل بھی تھے۔ یہ ان کی ذاتی اور قومی خودداری کی ہی تقاضا تھی کہ ہو سکتا ہے کہ لوگ اسے طعنہ دیں کہ اس نے دوسروں کے بچوں کو قربانی اور فدائی بنانے کے لیے تیار کر کے بھیجا، چنانچہ اس نے سب سے پہلے اپنے 20 سالہ نوجوان بیٹے ریحان بلوچ کو بلوچستان کا پرچم اوڑھ کے اور بارود سے بھری گاڑی دے کر چاغی ضلع کے دالبدین شہر میں چینی بس پر فدائی حملے کے لئے بھیجا۔
یہ استاد اسلم بلوچ اور ان کے ساتھی سنگت کا ہی کارنامہ تھا کہ انہوں نے نہ صرف بلوچ مزاحمتی تحریک کو قبائلی، سرداری اور محدود علاقوں سے باہر نکالا اور بلوچستان کے وسیع میدانوں اور پہاڑوں میں جنگ کو پھیلایا بلکہ بی ایل اے کی تنظیم نو کر کے اور اس کو تنظیمی اور ادارتی شکل اور ترتیب بھی دی۔ استاد اسلم بلوچ نے شروع میں نہ صرف ’’مجید بریگیڈ‘‘ کی بنیاد رکھی بلکہ بعد میں اپنے ساتھی کمانڈروں کے ساتھ مل کر اسے ایک مضبوط اور منظم تنظیم کی شکل بھی دی۔ اس فیصلے پر عمل کرتے ہوئے آج بھی بہت سے فدائی نوجوان (بچے اور بچیاں) تیار ہو رہے ہیں اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے اپنی زندگیوں کا نظرانہ پیش کر رہے ہیں۔
استاد اسلم بلوچ، بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے درمیان قربت برقرار رکھنے اور ان میں اتحاد پیدا کرنے کے لئے بھی کوششیں کرتے رہے۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ ماضی میں بی ایل اے اور یو بی اے (یونائیٹڈ بلوچ آرمی) کے درمیان جاری جنگ کا فیصلہ 2018ع کے ابتدائی مہینوں میں ہوا اور صلح ہوگئی۔ اس قربت نے جلد ہی 10 نومبر 2018ع کو چار بلوچ مزاحمتی تنظیموں کے اتحاد “براس” (بلوچ راجی آجوئی سنگر) کو جنم دیا۔
استاد اسلم بلوچ، سندھ وطن، قومی تحریک اور مزاحمت کی جانب ایک خاص انسیت اور اپناپن رکھتے تھے اور وہ 2002ع سے سندھ کی مزاحمتی تحریک کا بھرپور عملی تعاون کرتے رہے تھے۔ استاد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی شہادت کے بعد ان کے ساتھیوں نے 26 جولائی 2020ع کو “براس” اور سندھ کی مزاحمتی تنظیم ایس آر اے سے اتحاد کیا۔
آج اس عظیم آزادی پسند مزاحمتی جنرل اور سندھ کی قومی آزادی اور جدوجہد کے سچے اور عملی ساتھی، دوست اور بھائی کی شہادت کا دن ہے۔ اس موقع پر سندھی قوم اور ایس آر اے انہیں لطیف کی ان سطروں کے ساتھ قومی اور انقلابی سلام پیش کرتے ہیں۔
ڪَڇي ڪاڇوٽي ، نانگن ٻَڌي نِينهن جي
جِهڙا آيا جَڳَ ۾ ، تِهڙا ويا موٽي
سُکَ نه سُتا ڪاپڙي ، لاهي لانگوٽي
تَنين جي چوٽي ، پُورب ٿيندي پڌري۔
( ترجمہ؛ عاشقوں ، انقلابیوں نے عشق اور جدوجہد کا راستہ مضبوطی اور عَزم کے ساتھ اختیار کیا ہے۔ وہ جیسے اِس جہاں میں آئے تھے ویسے ہی اپنا انقلابی کردار ادا کر کے واپس چلے جائیں گے۔ عشق کا راستہ اختیار کرنے کے بعد وہ سوتے جاگتے وطن سے وفا اور مقصد کی جستجو میں رہتے ہیں۔ اُن کی جدوجہد ، جستجو اور مہانتا دور دور تک ظاهر ہوگی)