سی ٹی ڈی اور ڈیتھ اسکواڈز کو غیرفعال کیا جائے، اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرینگے – ماہ رنگ بلوچ

333

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا تربت سے کوئٹہ لانگ مارچ بعد ازاں کوئٹہ سریاب روڈ پر دھرنا آج بھی جاری رہا جہاں سے دھرنے کے مقررین نے صحافیوں کو پریس کانفرنس میں اپنے آئیندہ کاعمل سے آگاہ کیا-

کوئٹہ دھرنے کے مقام سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کوئٹہ کے رہنماء ماہ رنگ بلوچ نے کہا گذشتہ 21 دن سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے جاری تحریک 3 دن پہلے شال پہنچ چکی ہے جہاں پر گذشتہ 3 دنوں سے دھرنا دیا جا رہا ہے۔

ماہ رنگ بلوچ نے پریس کانفرنس میں کہا بلوچستان میں جاری ریاستی جبر، دہشت اور ناانصافیوں کے خلاف اٹھنے والی تحریک کو دبانے کیلئے ریاست نے تمام ذرائع استعمال کیے، شہید بالاچ بلوچ کی بہن نجمہ کو حبس بے جا میں رکھنا ہو یا لانگ مارچ کے شرکاء کو ڈرانے دھمکانے اور کنارہ کرنے کی کوشش جبکہ ان تمام دباؤ اور غیرانسانی حرکتوں کے باوجود جب شہید بالاچ و درجنوں لاپتہ افراد کے لواحقین انصاف مانگنے لانگ مارچ کی صورت میں کیچ سے نکلے تو انہیں ہر طرح کے ذرائع سے روکنے کی کوشش کی گئی۔

انہوں نے کہا نال سے لیکر شال تک تقریبا 10 سے زائد مرتبہ باقاعدہ طور پر پولیس و سی ٹی ڈی و سوراب کے ایک مقام پر ڈیتھ اسکواڈز کے اہلکاروں کو راستے میں تعینات کرکے مارچ کو آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کی گئی جو ریاست کی بلوچستان کے حوالے پالیسیوں کی واضح عکاسی کرتی ہے، کہنے کو تو پاکستان جمہوری ملک ہے اور یہاں پر تمام شہریوں کو تمام حقوق حاصل ہیں لیکن بلوچستان میں ماؤں اور بہنوں کو جس طرح ٹریٹ کیا جا رہا ہے یہ اب کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا جب پولیس نفری اور ڈیتھ اسکواڈز کے رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے لانگ مارچ آگے بڑی تو انہیں شدید تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا جس کا مقصد بنیادی طور پر مظاہرین کو تشدد پر اکسانا تھا تاکہ بلوچستان بھر میں لوگوں میں اشتعال پھیلا کر ایک جنگ زدہ ماحول بنایا جائے تاکہ انہیں کریک ڈاؤن کا جواز مل سکے لیکن اس پورے 21 دن کی تحریک میں مظاہرین مکمل طور پر پرامن رہے اور اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔

اپنی پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا بلوچستان میں جاری ناانصافیاں، بربریت اور انسان سوز واقعات گنے چنے نہیں ہیں بلکہ بالاچ و 3 ساتھیوں کی شہادت کے ایک ہفتے کے دوران 10 زیرحراست قیدیوں کو شہید کیا گیا تھا جس میں خضدار سے تین افراد کو جعلی مقابلے میں شہید کیا گیا تھا جبکہ بالگتر میں 3 زیر حراست افراد کو بارودی مواد سے اڑا کر شہید کیا گیا بلوچستان میں ریاست کی حالیہ انسانیت سوز واقعات نئے نہیں بلکہ مارو پھینکو کی پالیسی کے تحت ہزاروں افراد بشمول غلام محمد، لالا منیر، شیر محمد، سنگت ثناء، کمبر چاکر، رسول بخش مینگل جیسے قدآور اور نامور سیاسی کارکنان کی لاشیں ویرانوں میں پھینک دی جبکہ سینکڑوں شخصیات آج تک لاپتہ ہیں۔

حالیہ دنوں ریاست نے مارو اور پھینکو کی پالیسی کو فیک انکاؤنٹر کی شکل میں تبدیل کرکے جو پالیسی اپنائی ہے اس کی بنیادی وجہ بلوچستان میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنا ہے تاکہ لوگ گھروں میں محصور ہوکر ریاست کے ہر جبر اور وحشت کو خاموشی سے برداشت کریں اس سلسلے میں اب تک سینکڑوں افراد کو سی ٹی ڈی کے نام پر قتل کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا سی ٹی ڈی کو بلوچستان میں ایف سی کی زمہ داریاں دی گئی ہیں جو کام پہلے فوج ایف سی کے ذریعے کرواتا تھا اب وہ سی ٹی ڈی کے ذریعے یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ مارچ کے ڈیمانڈز کے مطابق ہم لاپتہ افراد کی بازیابی کا جہاں مطالبہ کر رہے ہیں وہی بلوچستان میں ہر دوسرے دن ریاست کسی کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بناتی ہے آج قومی موومنٹ کی شکل میں بلوچ قوم جو ردعمل ریاست کے خلاف دے رہی ہے وہ اصل میں ریاستی تشدد، جبر اور ناانصافیوں کے خلاف عوام میں موجود غم و غصہ ہے۔

بلوچستان میں ہر علاقے سے ہزاروں لوگوں نے نکل کر ریاست پر واضح کر دیا ہے کہ وہ اب مزید کسی جبر کا سامنا نہیں کرینگے بلکہ مزاحمت کا راستہ اختیار کرینگے، ہمارے بنیادی مطالبات جو ہم یہاں پر واپس دہراتے ہیں کہ سی ٹی ڈی کو بلوچستان میں فیک انکاؤنٹرز، غیرقانونی چھاپے و قتل و غارت گری کیلئے فعال کیا گیا ہے اس لیے سی ٹی ڈی کو غیر فعال کیا جائے یا اُسے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے کہ وہ اپنی نسل کشی کی پالیسیاں بدل دیں جبکہ ڈیتھ اسکواڈز جو اس وقت بلوچستان بھر میں فعال ہیں انہیں غیر فعال کیا جائے جبکہ بالاچ، شعیب، ودود، سیف و شکور کی شہادت میں ملوث تمام کرداروں کو سزا دی جائے اور تمام لاپتہ افراد جو اس وقت ریاست کے زیر حراست قید ہیں ان کے حوالے سے ریاست باضابطہ طور پر واضح کریں کہ وہ کہاں ہیں، یا انہیں منظر عام پر لایا جائے یا چھوڑ دیا جائے جبکہ اب تک سی ٹی ڈی نے جتنے بے گناہ افراد کو فیک انکاؤنٹر میں قتل کیا ہے ان کا اعتراف کرے اور مزید کسی بھی لاپتہ بلوچ کو فیک انکاؤنٹر میں قتل نہ کرنے کی یقین دہانی کرائے۔
انہوں نے کہا ہم پہلے دن سے صاف اور مطالبات کے ساتھ یہ تحریک چلا رہے ہیں لیکن جہاں حکومتی ترجمان مسلسل بالاچ کو دہشتگرد قرار دے کر عام بلوچ کے دل میں مزید نفرت پیدا کر رہے ہیں وہی دوسری جانب اپنے نام نہاد کمیٹی کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ وہ کیس کے حقائق جاننے کیلئے بنایا گیا ہے اس سے ان کی دوغلا پالیسی واضح ہوتی ہے۔

ماہ رنگ بلوچ نے مزید کہا صوبائی حکومت کی غیر زمہ دارانہ بیانات، پرامن لانگ مارچ کے خلاف ریاستی تشدد و غیر سنجیدگی کو مدنظر رکھ کر اب یہ لانگ مارچ جلد از جلد شال سے اسلام آباد کی طرف جائے گی اور وفاق و ریاستی اداروں سے ڈائریکٹ ان ناانصافیوں کے حوالے سے اپنے مطالبات سامنے رکھے گی لانگ مارچ کے مستقبل کے پڑاؤ اور مقامات کے حوالے سے حوالے سے میڈیا و قوم کو جلد از جلد آگاہ کیا جائے گا جبکہ کل شال دھرنے گاہ سے 2 بجے ایک سیمینار کا انقعاد کیا جائے گا اور کل کوئٹہ بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال رہے گی جبکہ عوام سے مزید دھرنے میں شرکت کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔