سرفیس سیاست اور میرا نقطہ نظر – یوسف بلوچ

260

سرفیس سیاست اور میرا نقطہ نظر

تحریر: یوسف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

طے شدہ بات یہ ہے کہ جب تک میڈیا و مزاحمت باقی ہے حافظہ بھی باقی رہے گا۔ مثلاً جب سے کیچ میں دھرنا و اور اب لانگ مارچ مقتول بالاچ کی خاندان کی بہادری و مہربانی سے جاری ہے تب سے میڈیا ایک پل بھی ہمیں یہ بھولنے نہیں دے رہا کہ بلوچ کا مستقبل کیا ہے۔

اسی جستجو میں لٹریچر،سیاسی قاعدے زریعہ بن چکے ہیں کہ اپنی کتھارسز کو شیپ دیں۔ انہیں منظم کریں اور زندگی بخشیں۔

پہلے بحث محض یہ تھا کہ دھرنا گاہ کا رد و بدل موسمی اعتبار و پیشن گوئی پر اثرانداز ہوگا یا نہیں۔ دوسرا نقطہ غالباً یہ تھا کہ ماما قدیر کی بمقام احتجاجی کیمپ میں نیا دھرنا ریکارڈ کرانا نعم البدل بھی نہیں اور مؤثر بھی نہیں۔

مجھے گھنٹا یہ نہیں سمجھ آیا کہ احتجاج کا مقصد ہم کیا سمجھ بیٹھے ہیں۔ اگر احتجاج کا مقصد کامیابی ہے تو سالوں سال ماما کی کامیابی کیا ہے۔ ماما کے مطالبات وہی ہیں جو پانچ سال پہلے تھے۔ نیا کوئی مطالبہ نہیں، کامیابی وہ ہے جب آپ کے مطالبات یکسر تبدیل ہوں یا نہ ہوں۔
احتجاج کو کامیابی سے تشبیع دینے کی بات آتی ہے تو مجھے وجاہت مسعود یاد آتے ہیں کہ انہیں منڈیلا کے لیے احتجاج کرنے والے نوجوان ملے، پوچھا کب سے احتجاج پر ہیں جواب دیا سالوں سے۔ پھر پوچھا کب تک احتجاج کریں گے،جواب آیا جب تک منڈیلا رہا نہیں ہوتا۔ مسعود نہیں پھر پوچھا کہ کیا آپ کی یہاں کھڑے ہونے سے منڈیلا رہا ہوں گے۔ جواب آیا ”احتجاج حق کے لیے کیا جاتا ہے،کامیابی کی ضمانت کی بنیاد پر نہیں“۔

سو احتجاج بلوچ کا حق ہے کہ وہ کرے۔ موبلائزیشن کا اصطلاح و عملی دورانیہ بھی ہمارے ہاں نئی نہیں ہے۔ سن 2000 سے پہلے و بعد جو کچھ بلوچ سرزمین میں ہوا موبلائزیشن ہی تھا۔ ریاست کو وہاں دخل اندازی کا جواز ملا اور اب شاید بلوچ مزاحمت بالغ ہے کہ ریاست کو بلواسطہ جواز کا موقع نہیں دے رہی۔

ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ بلوچ مزاحمت ریاست کو دباؤ دینے میں کامیاب رہا ہے۔ بظاہر یہ سوال ان کی طرف بار بار کہی جا رہی ہے جو نسبتاً زمینی احتجاج و مارچ کو بےسود سمجھتے ہیں۔ میری بدنصیبی یا کم علمی ہو سکتی ہے کہ میں جان اچکزئی کو ریاستی خفیہ و ظاہری ترجمان سمجھتا ہوں۔ جان اچکزئی کی کیفیت سے ریاستی کیفیت و جان کی لب و لہجے کو ریاستی لب و لہجہ اخذ کرتا ہوں۔ بہرکیف فی الحال جان اچکزئی ہر سمت اس مزاحمت،یکجہتی سے پریشان ہیں،دباؤ کا شکار ہیں لیکن انہیں روک بھی نہیں پارہے۔

لانگ مارچ سے میڈیا کی کتنی کوریج ہوگی اہم نقطہ ہے لیکن لانگ مارچ ہر وہ بیانیہ و ڈر کو کچل رہی ہے جو دانستہ ریاستی ڈسکورس کا حصہ ہیں۔ مثلاً جبری گمشدگی پر ریاستی بیانیہ کو مسترد کرنا، خود ساختہ ”امن“ کو ظاہر کرنا، عام عوام کو قانونی طریقے سے یکجا کرنا اور بلوچستان پر بنائی گئی نام نہاد مثبت امیج کو ختم کرنا اور دنیا کو ایکچوئل مناظر سے آگاہ کرنا۔
بلوچ زمین پر بلوچ جہدوجہد یا شعوری لائحہ عمل کو جتنا آسان سمجھا جارہا ہے وہ اس سے ہزار گنا مشکل ہے۔ ہر بلوچ ریاستی بیانیہ،پارلیمانی بیانیہ و بیرونی بیانیہ میں جکڑا ہوا ہے۔ اس سے نکلنے میں سرپیس سیاست ایک نعمت ہے۔ سرپیس سیاست کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ قومی رہنماؤں سے آپکی واقفیت کراتی ہے۔ خود ساختہ لیڈران کو دلیل و زمینی حقائق سے کچرا بناتی ہے اور آنسوؤں سے بلواسطہ تربیت کرتی ہے۔

میرے لیے محض یہ بڑی بات نہیں کہ ہزار بلوچ کوئٹہ میں دھرنا دے بلکہ عظیم یہ ہے کہ ہزار بلوچ وہاں جمع کریں کہ وہاں صرف ووٹ کے لیے ہزار لوگ جمع ہو پاتے تھے لیکن قومی بقا و جہدوجہد کے لیے دس بھی نہیں۔

بڑی بات یہ ہے کہ لانگ مارچ کوچہ کوچہ جائے اور ہر بلوچ کو یکجا کرے۔ بلوچ کا درد،حالات دہائیوں سے ایک ہی ہیں لیکن ڈر نے تقسیم کرنے میں ریاست کو مدد کیا ہے اور سرپیس سیاست کی بُو جہاں کہیں جا رہی ہے ریاستی بیانیہ و خود ساختہ ڈر کو ملیا میٹ کر رہی ہے۔

ریاست کے ہاں ادارے ہیں جہاں وہ اپنی بیانیے کو با آسانی پھیلا سکتی ہے ہمارے ہاں چار لاؤڈ اسپیکر و سوشل میڈیا ہے۔ تحریک میں جتنی زیادہ مجموعی جہدوجہد کی تعریف ہوگی،مجموعی طاقت کا انحصار ہوگا ہم اتنی زیادہ ابھر کر سامنے آئیں گے اور اُس جستجو سے جڑے رہیں گے جس کو ڈر سے ہم سے جدا کر رکھا ہے۔

انتہائی اہم نقطہ میرے ہاں یہ ہے کہ جتنی سرپیس محکم ہوگی اتنی ہی سیاسی تربیت آسان ہوگی۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں اور یہ ہمیں ایک منزل تک پہنچا پائیں گے۔