بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں نے جمعرات کے روز اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ریاست اس لانگ مار چ جو اسلام آباد میں دھرنے کی شکل میں موجود ہے اس کو ختم کرنے کیلئے کس طرح براہ راست طاقت کا استعمال کررہی ہے۔ بلوچ خواتین اور بچوں پر تشدد کرکے انہیں اسلام آباد سے بے دخل کرنے کی کوشش ہو یا سینکڑوں بلوچ طالب علم اور نوجوان جو اسلام آباد میں لانگ مارچ کے شرکا کو ویلکم کرنے کیلئےجمع ہوئے تھے ان پر شدید تشدد اور ان کی غیر قانونی گرفتاری اور جیل سے جبری گمشدگی یہ تمام واقعات بلوچستان کے کسی گاؤں یا دیہات میں نہیں بلکہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہوئے ہیں اور دنیا و کیمرے کے سامنے ہوئے ہیں۔ جس کے بعداب کسی بھی ذی شعور انسان کو بلوچوں پر ہونے والے ریاستی جبر اور تشدد کے حوالے سے کسی شک و شبے میں نہیں رہنا چاہیے۔ ہزاروں میل دور سے شہید بالاچ اور لاپتہ افراد کے لواحقین اس امید کے ساتھ اسلام آباد پہنچے کہ ریاست شاید بلوچستان میں دیکھ نہیں پا رہی ہے لیکن اسلام آباد آمد پر ریاست نے جس طرح دشمنوں جیسا سلوک اور رویہ رکھا اور ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بلوچستان کے لوگ ریاست کے شہری نہیں، جنہیں پرامن احتجاج سمیت اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی کوئی حق نہیں ہے، اس لیے ان کے ساتھ ریاست کچھ بھی کر سکتا ہے۔ خواتین و بچوں پر تشدد، لاپتہ افراد کے لواحقین کو جیل میں ڈالنے سے لیکر جس طرح رات گئے سوئے ہوئے خواتین پر حملہ کرتے ہوئے انہیں ہراساں کرنے اور ساؤنڈ سسٹم کو چوری کرنے تک یہ ثابت کرتے ہیں کہ ریاست بلوچوں کے خلاف ہر طرح کے حربے استعمال کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ جب تشدد، لاٹھی چارج، واٹر کینن، جیل، تذلیل اور دیگر ذرائع لانگ مارچ شرکا کے جدوجہد کو سبوتاژ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو انہیں نے صحافی نما ریاستی اہلکاروں سے لواحقین کو ٹارچر کرنا شروع کیا۔ بہت سے ایسے صحافیوں کو اس نیت سے بھیجا گیا تاکہ لانگ کے مارچ شرکاء کے حوالے سے ایک جھوٹا بیانیہ قائم کیا جائے اور اس مقصد کیلئے جبری گمشدگی کے شکار افراد کےلواحقین اور دیگر سیاسی کارکنان پر ریاستی بیانیہ کو پروموٹ کرنے کیلئے دباؤ ڈالا گیا تاکہ ریاستی دہشتگردی، قتل و غارت گری، جبری گمشدگی سے توجہ ہٹا کر ریاستی بیانیے کو سامنے لایا جائے جو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نفسیاتی ہراسگی کے ذمرے میں آتا ہے۔ بلوچستان میں اس وقت ایک ہی حقیقت پایا جاتا ہے اور وہ حقیقت بلوچستان میں لوگوں کی نسل کشی، جبری گمشدگی وسائل کی لوٹ مار، ڈیتھ اسکواڈز، ریاستی فورسز کی دہشتگردی،غیر قانونی چھاپے ، قتل و غارت گری، بلوچوں کی سیاسی، انسانی، معاشرتی، معاشی استحصال اور ریاستی اداروں کے ظالمانہ اقدامات ہیں۔ اس وقت پورا بلوچستان اس ریاستی جبر، تشدد، بربریت اور درندگی کے زد میں ہے اور آئے دن اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پوری دنیا کے سامنے جب ریاست پرامن مظاہرین کے ساتھ اس طرح پیش آتا ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بلوچستان میں میڈیا اور انٹرنیٹ کی غیر موجودگی میں ریاست کا رویہ کیسا ہوگا۔ اس لانگ مارچ کے حق میں مکران سے لیکر ڈی جی خان اورکراچی و سندھ کے درجنوں علاقوں میں بلوچوں نے ہزاروں کی تعداد میں روڑوں پر نکل کر ریاست پر واضح کر دیا ہے کہ بلوچ قوم مزید ریاستی دہشتگردی قبول نہیں کرے گی او ر اس جبر کے خلاف مزاحمتی عمل میں برسرپیکار لاپتہ افراد کے لواحقین، ریاستی جبر کے شکار لوگ اور سیاسی جہدکار یکجاہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ ریاست کی سنجیدگی اور مسائل کے حوالے سے مذاکرات کی انتہا یہ ہے کہ جہاں ایک جانب پریس کانفرنس کرکے کہا جاتا ہے کہ مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کرکے مسائل کو حل کیا جائے گا جبکہ دوسری جانب مظاہرین کو گرفتار کرنا، اغوا کرنا، اٹھانا، تشدد کا نشانہ بنانا اور ہراساں کرنے کا عمل شدت سے جاری ہوتا ہے۔ پاکستان کے انصاف کے اعلی ادارہ ہائی کورٹ میں بھی بھرپور جھوٹ بولا گیا، دو دن پہلے میڈیا میں اسلام آباد پولیس نے تمام طلباء کے رہائی کی جھوٹی خبر چلائی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تمام طلباء اب تک بھی بازیاب نہیں ہوئے ہیں جو ریاست کی غیر سنجیدگی کو واضح کرتی ہے جبکہ ایک طرف جہاں مذاکرات کرنے کی باتیں ہوتی ہیں تو دوسری جانب رات گئے سوئے ہوئے مظاہرین کو ہراساں کرنے کیلئے بندوق سے حملے کیے جاتے ہیں جو ہمارے ان خدشات کو حقیقت میں بدل دیتے ہیں کہ ریاست بلوچستان کو ایک کالونی کے طریقے سے ڈیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ریاست کو 3 دن کی الٹی میٹم لاپتہ طلبا کو رہا کرنے کیلئے دیا گیا تھا جو اب تک پورا نہیں ہوا ہے اور اب تک تمام طلباء رہا نہیں کیے گئے ہیں جبکہ دوسری جانب مسلسل جھوٹ بولا جارہا ہے۔
رہنماؤں نے کہاکہ تربت سے میلوں دور لاپتہ افراد کے لواحقین ، ریاستی جبر کے شکار عوام اور سیاسی کارکنان اسلام آباد اس لیے آئے ہیں کہ انہیں انصاف مل سکیں لیکن ریاست نے جو رویہ دیکھایا ہے وہ کسی بھی طرح ایک ریاست کا اپنے شہریوں کے ساتھ پیش آنے والا رویہ نہیں بلکہ آقا کا اپنے غلاموں کے ساتھ پیش آنے والا رویہ تھا۔ تحریک کے مطالبات پہلے دن سے واضح ہیں اور انہی پر تحریک قائم ہے ۔ ریاست کو درجہ ذیل مطالبات پر اگلے 7 دنوں کیلئے مذاکرات کا وقت دیتے ہیں۔
جن میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کی سربراہی بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجا جائے۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیاں ماورئعدالت ہلاکتیں ختم کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کی موجودگی میں معاہدے پر دستخط کیا جائے ۔
۔تمام جبری طور پر لاپتہ کیے گئے بلوچوں کو ، خاص طور پر جن کے اہل خانہ اس دھرنے میں شامل ہے، کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
۔ بلوچستان میں ماروائے عدالت قتل کے سرغنہ ادارہ سی ٹی ڈی پر پابندی عائد کی جائے اور ریاستی ایجنسیوں کے سربراہی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈز کا خاتمہ کیا جائے۔ جس کی تحریری اعلامیہ جاری کیا جائے۔
۔جبری طور پر لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کا اعتراف کیا جائے۔ اس کے لئے، وزارت داخلہ کی جانب سے اعترافی خط جاری کیا جائے اور پریس کانفرنس بھی ہونی چاہیے جس میں تمام متاثرین کے نام شامل ہوں۔ اور اس کے ساتھ ہی پرامن مظاہرین کے خلاف تمام جعلی ایف آئی آر واپس لیے جائے۔
اگر درج بالا مطالبات پر ریاست نے سنجیدہ مذاکرات نہیں کیے اور سنجیدگی نہیں دیکھائی اور جس طرح انہوں نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مظاہرین کے ساتھ رویہ رکھا ہوا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہا تو ایک ہفتے بعد تحریک کی جانب سے ریاستی نسل کشی کی پالیسیوں اور بلوچستان کے ساتھ کالونی جیسا سلوک کرنے پر ریاست کے تمام اداروں سےواضح مایوسی کا اظہار کرکے ہم اپنا مدعا بلوچ عوام کے سامنے رکھے گے اور پھر فیصلہ عوامی قوت کریں گی۔ اس ایک ہفتے میں ریاست کو بلوچوں پر واضح کرنا ہوگا کہ وہ بلوچوں کی نسل کشی کےحوالےکتنا سنجیدہ ہے تو انہیں عملاً ثابت کرنا ہوگا اور بلوچستان میں جبری
گمشدگیاں، ماروائے عدالت قتل سمیت تمام قسم کے انسانی حقوق کی پامالیاں اور غیر قانونی اقدامات فوراًبند ہونے چاہیے اگر ریاست اپنے کالونیل مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کےلیے تیار نہیں ہے تو پھر فیصلہ بلوچ عوام کے کورٹ میں ہوگا۔