بلوچ یکجہتی کمیٹی نے پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کہا ہے کی اسلام آباد میں پیچھلے دو دنوں سے جو کچھ ہوا ہے وہ بلوچ قوم، انسانی حقوق کے ادارے، میڈیا اور دنیا کے سامنے ہے کہ ریاست بلوچستان اور بلوچوں کے حوالے سے کیا سوچتی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے کیچ سے شروع ہونے والا لانگ مارچ مکمل جو 16 سو کلومیٹر طے کرکے اسلام آباد اس آسرے پر پہنچا کہ شاید یہاں میڈیا، عدالتیں اور ریاستی حکمران موجود ہیں انہیں شاید ان بوڑھی ماؤں اور بہنوں پر ترس آئیں جن کے پیارے کئی سالوں سے لاپتہ ہیں اور حالیہ دنوں جس طرح فیک انکاؤنٹر کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے اس کو ختم کیا جائے اور سی ٹی ڈی جیسے دہشتگرد ادارے جو اس وقت بلوچستان میں بلوچ قوم کی نسل کشی میں ملوث ہیں انہیں مکمل طور پر غیر فعال کرتے ہوئے بلوچوں کو سکون سے جینے دیا جائے لیکن ریاست اس کے برعکس لانگ مارچ کا اسلام آباد میں کسی اور طریقے سے انتظار کر رہا تھا۔
انہوں نے کہاکہ نہتے خواتین اور بچوں کو جس طرح بیچ سڑک پر مارا گیا، جس طرح ان کی تذلیل کی گئی، جس طرح انہیں گرفتار کرکے پاگل عورتوں کے ساتھ رکھ کر انہیں ذہنی کوفت سے دوچار کیا گیا یہ قوم اور دنیا کے سامنے ہے۔ ریاست نے حالیہ دو دنوں سے اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے لواحقین اور بلوچ نوجوانوں پر واضح کر دیا ہے کہ ریاست بلوچستان کے حوالے سے کیا سوچتی ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ سب کچھ اچانک ہوا ہے بلکہ کئی دنوں کی پلاننگ کے ساتھ ایک پرامن لانگ مارچ کو ریاست نے مکمل طور پر کرش کرنے کی کوشش کی ہے۔ لانگ مارچ جب 26 دنوں کا طویل سفر طے کرکے کیچ سے اسلام آباد تک خود کو پہنچانے میں کامیاب رہا تو اسلام آباد پہنچتے ہی ایک بڑی فورس کھڑی کی گئی، جبکہ نیشنل پریس کلب کے سامنے جہاں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین گزشتہ 24 دنوں سے بیٹھے ہوئے تھے ان پر بھی ریاست نے ہلہ بھول دیا جبکہ مظاہرین کے خلاف آنسو گیس، شیلنگ، لاٹھی چارج، رات کی ٹھٹرتی سردی میں واٹر کینن کا بھروپر استعمال کیا گیا جبکہ رات کے اندھیرے میں تقریبا 300 کے قریب نوجوانوں کو اٹھایا گیا جبکہ نیشنل پریس کلب کے سامنے کریک ڈاؤن کے بعد ریاست نے جہاں جہاں بلوچ طلباء رہائش پزیر ہیں وہاں پر چھاپے مارنا شروع کر دیا اور تقریبا مزید سینکڑوں نوجوان جبری طور پر لاپتہ کیا۔ جس میں کچھ مظاہرین کو منظرعام پر لایا گیا ہے مگر 20 نوجوان ایسے ہیں جنہیں اب تک لاپتہ رکھا گیا ہے اور ان کے حوالے سے کسی کو کوئی بھی علم نہیں ہے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں شدید خدشہ ہے کہ ریاست انہیں بلوچستان کے دیگر نوجوانوں کی طرح پرامن احتجاج کی پاداش میں گمشدہ نہ کریں۔ ریاست کا رویہ جس طرح گزشتہ کئی دنوں سے دیکھنے کو مل رہی ہے وہ کسی کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ کل رات بوڑھی بلوچ ماؤں، چھوٹی بچیوں سمیت ڈاکٹر ماہ رنگ پر شدید تشدد کرکے ریاست نے واضح کر دیا کہ ان کے حقوق کی ریاست کو کوئی بھی غم نہیں ہے۔ اس وقت ریاستی دہشتگردیوں کے خؒلاف پورا بلوچستان سراپا احتجاج ہے جس میں گوادر، تربت، ہیرونک، پنجگور، حب، کراچی، ملیر، بیلہ، وڈھ، خضدار، مستونگ، دالبندین، یک مچ، کوئٹہ، کوہلو، رکنی، بارکھان، آواران، تونسہ، ڈی جی خان، ڈیرہ بگٹی، سبی بلکہ بلوچستان کا کوئی ایک بھی ایسا علاقہ نہیں جہاں احتجاج نہیں ہو رہے ہیں۔اس وقت پورا بلوچستان بند ہے، تمام شاہراہیں بند کر دیے گئے ہیں اور شٹر ڈاؤن و پیہہ جام ہڑتال جاری ہے لیکن ریاست تشدد کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور ہر حال میں بلوچ قوم کو تشدد کے ذریعے زیر کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جلد از جلد اسلام آباد سے اٹھائے گئے تمام افراد کو رہا کیا جائے اور منظر عام پر لایا جائے اگر انہیں منظر عام پر نہیں لایا گیا اور انہیں رہا نہیں کیا گیا تو سخت اقدامات اٹھانے پر مجبور ہو سکتے ہیں جبکہ اس وقت حب سے کراچی روڈ، کوئٹہ ٹو کراچی روڈ سوراب، خضدار، مستونگ اور کوئٹہ کے مقام سے بند ہے اور سی پیک بھی مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے جبکہ شٹر ڈاؤن ہڑتال کل بھی بدستور جاری رہے گا۔ اگر اسلام آباد سے اٹھائے گئے طلبا رہا نہیں ہوئے تو بلوچسان ایسے ہی مکمل بند ہی رہے گا جبکہ نیشنل پریس کلب کے سامنے کل کیمپ لگائی جائے گی اس وقت ڈیمانڈ صرف تمام اٹھائے گئے افراد کی بازیابی ہے۔ اسلام آباد کے علاوہ ڈی جی خان سے بھی 20 کے قریب نوجوان احتجاج کے پاداش میں اٹھائے گئے ہیں ان تمام کی رہائی کے بعد ہی بلوچستان کے روڈ بلاکس کھول دیے جائیں گے۔ ان تمام کی رہائی کے بعد بلوچستان کے روڈ بلاک ختم کیا جائے گا جبکہ ریاستی تشدد کے خلاف احتجاج اور ریلیوں کا سلسلہ بلوچستان بھر میں جاری رہے گا۔