دھرنے سے دھرنے تک شاری کا سفر – عمران بلوچ

358

دھرنے سے دھرنے تک شاری کا سفر

تحریر: عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بڑوں سے ایک قصہ اکثر پنت و نصیحت کے طور پر کردار کو بنانے اور سنبھالنے یعنی تربیت کے لئےسننے کو ملتا تھا کہ ایک شہزادے کو کسی ریاست میں ایک نہایت ہی خوبصورت لڑکی پسند أگئ تھی دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے اور ہم سفر بننے کافیصلہ کرلیا۔ مگر دونوں کے والدین نے ان کا أپس میں رشتہ کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ پھر وہی ہوا جو اکثر ایسے قصوں، کہانیوں میں ہوتا أیا ہے کہ دونوں نے ظالم سماج کوملامت کرکے اس کے خلاف بغاوت کرنے اور بھاگ کر کسی اور ریاست میں شادی کرکے بسنے کا فیصلہ کرلیا۔

راہ چلتے انھوں نے کہیں سے ایک اونٹ کرائے پر لیا تاکہ طویل سفر تیزی سے کٹ جائے اور کوئ ان کو اس طرح پہچانے گا بھی نہیں کہ کوئ شہزادہ بھی کرائے کے اونٹ پر سفر کر سکتا ہے۔

ایسے میں وہ دونوں نہ صرف اپنا پیچھا کرنے والوں سے بچ جاہیں گے بلکہ بہ أسانی اپنی منزل پر پہنچ کر شادی کرلیں گے۔ خیر کرتے کراتے وہ ایک ندی کے پاس پہنچے گئے، جہاں انھیں وہ ندی پار کرنا تھا ندی کو دیکھ کر اونٹ کروٹ لےکر بیٹھ گیا اب اونٹ نہ دوبارہ اٹھے نہ چلنے کا نام لے۔

ان دونوں کا دم گھٹنے لگا کہ کہیں اگر دونوں خاندان والوں نے ان کا پیچھا کرتے ہوئے ادھر پہنچ جاہیں اور انھیں دیکھ لیں تو انھیں قتل کردینگے۔

ان دونوں نے اور اونٹ کے مالک نے بہت کوشش کی مگر اونٹ ہے کہ ہلنے کا نام نہیں لے رہا۔ اونٹ کا مالک شرمندگی، پریشانی اور مایوسی کی کیفیت سے دوچار اور بالکل لاچار کھڑا اپنی سواریوں کے کیفیت سے أشنا نڈھال کھڑا ہے اور خود بھی ڈر رہا ہےکہ اگر بھاگنے والوں کے خاندان کو پتا چلا کہ یہ انہیں بھگا کے لے جا رہا ہے اس کی تو زندہ کھال اتار دینگے۔

اس کے پورے بدن سے پسینے چوٹنے لگے اور چہرے کا ایک رنگ جائے تو دوسرا أئے۔ ہر طرح کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ دوسری جانب سواریوں کو صفائی پیش کرتا رہا کہ یہ بہت اچھا اور نسلی اونٹ ہے، اس نے أج تک ایسا نہیں کیا ہے، اس کی تیسری چوتھی نسل ہمارے پاس ہے، پر أج نجانے اس کو کیا ہوا، پھر کہنے لگا کہ ہاں البتہ بڑوں نے کہا تھا کہ اس کی پڑ نانی ایسی تھی وہ بالکل اسی طرح بہتے پانی کو دیکھ کر بیٹھ جاتی اور پھر چاہے اندھی أئے یا طوفان ہلنے کا نام نہیں لیتی تھی۔ بس یہ سننا تھا کہ شہزادے نے واپس گھر چلنے کا فیصلہ کیا۔

یہ سن کر لڑکی کے اور اونٹ والے کے تو ہوش اڑ گئے کہ ایک تو گھر سے بھاگے ہوئے لوگ، جس کی سزا روایات میں قتل ہے مگر پھر بھی یہ پاگل اتنا کچھ ہونے کے بعد اب واپس جانے کی بات کررہا ہے، پر لڑکا ہے کہ کوئ دلیل کوئ منطق ماننے کو تیار نہ تھا بس واپس چلنے کا حتمی فیصلہ کرکے مڑا تو مجبوراً لڑکی کو اور اونٹ والے کو بھی واپس اس کے ساتھ چلنا پڑا وہ دونوں اسے بار بار بتاتے رہے کہ ان کا انجام قتل ہے پر لڑکا کچھ سننے کو تیار نہ تھا شاید اسے روایات کی حقیقت اور دوسرا پہلو بھی سمجھ أچکا ہوگا تبھی تو کچھ سوچ کر کوئ نیا خیال لیکر وہ واپس جانے لگا۔

اب اس کہانی کا یہاں زکر کرنے کا مقصد اور اس کی تشریح سے پہلے ایک اور کہانی کی طرف جاتے ہیں۔

کہتےہیں کہ کہیں ایک ریاست میں بادشاہ اپنے خاندان اور رعایا کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزاررہا تھا کہ ایک دن اس نے اپنی بیوی کو پریشان پایا ، بار بار پوچھنے پر بھی بیوی نے کچھ نہ بتا کر بات کو ٹالتی رہی جس سے بادشاہ بھی پریشان ہونے لگا، کیونکہ اسے سمجھ نہیں أرہا تھا کہ مسلہ کیا ہے اور ملکہ کیوں پریشان ہے۔ اوپر سے کچھ بتاتی بھی نہیں ہے پریشانی کے اس عالم کے بڑھنے اور ملکہ کی خاموشی نے پورے گھر کو متاثر کر رکھا تھا۔ لہزا بادشاہ نے اسے سمجھایا کہ ہم بادشاہ اور ملکہ ہونے کے علاوہ میاں بھی ہیں، ایک ہی خاندان ہیں، تو ضروری ہیکہ أپس کے مسلے مسائل کا ایک دوسرے سے زکر کریں تب ملکہ نے ہمت کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے غلام کی بیوی جو ان کے ہاں روٹی پکاتی ہے اس نے اپنے بیٹے کے لئے ہماری بیٹی کا رشتہ مانگنے کی بات کی ہے کہ وہ أکر أپ سے ملنا چاہتے ہیں تاکہ بات مزید اگے لیجائ جاسکے۔

اس پر بات بادشاہ نے مسکرا کر خاموشی سے ملکہ سے کہا کہ غلام کی بیگم سے کہو کہ ہمیں سوچنے کے لئے چند دن دو پھر اس کے بعد جواب دے دینگے۔

خیر کافی عرصہ گزر گیا کہ ملکہ ایسے خاموش کہ شاید ہی کھبی ایسی کوئ بات ہوئ ہو، ایسا لگتا تھا جیسے وہ بھول چکی تھی۔

ایک دن یونہی بادشاہ نے ملکہ سے پوچھا کہو تماری اور تمھاری غلام کا کیا حال ہے؟ کیا اب بھی وہ وہی بات کرتی ہیکہ نہیں ؟ ملکہ نے کہا نہیں اس دن کے بعد أج تک اس نے دوبارہ وہ بات نہیں کی ہے۔
بادشاہ نے ملکہ سے کہا تم اس سے کل جاکر ملو اور اسے کہو کہ تم لوگوں نے بادشاہ کے لئے ایک پیغام بیجاتا تو اب رسمی طور اپنے اس بات کا أکر بادشاہ سے ملو اور جواب طلب کرو۔ ملکہ نے اگلے دن بالکل ویسا ہی کیا۔

صبح سویرے وہ جاکر غلام سے ملی اور بالکل اسی طرح اسے بتایا جیسا کہ بادشاہ نے اسے سمجھایا تھا وہ غلام یہ بات سن کر کانپنے لگی، پھر رونے، چیخنے اور چلانے لگی اور بات سے مکر گئ، اپنے شوہر کو بلا کر دونوں ملکہ کے پیر پڑگئے اور گڑ گڑا کر معافی مانگنے لگے اور جان بخشی کی استعدا کی کہ وہ انھیں بادشاہ سے معافی دلادے ورنہ بادشاہ زندہ ان کے کھال اتار لیگا، ملکہ بھی حیران و پریشان یہ سب دیکھ رہی تھی پر سمجھنے سے قاصر تھی کہ أخر یہ سب کیا ہورہا ہے گو پہلے ان لوگوں نے خود ہی پیغام بیجا اور اب نہ صرف مکر رہے ہیں بلکہ ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں، حتی کہ انھوں نے یہاں تک بھی کہہ دیا کہ چلو ہم غلام تھے بیوقوف اور نادان تھے پر أپ نے بھی ہماری باتوں کو سنجیدہ لیکر سیدھا گئ اور بادشاہ کوسب کچھ بتا دیا۔ اب بادشاہ ہر حال میں ہمیں سزا دیگا، پھر ہماری کیا اوقات کیا برابری کہ شہزادی کا ہاتھ اپنے بیٹے کے لیے مانگے۔ یہ سب سن کر ملکہ مزید تزبزب کا شکار ہوکر محل میں موجود اپنے گھر کے اندر چلی گئ پر کچھ سمجھ نہ پائ، شام کو بادشاہ جب محل کے اپنے گھر والے حصے میں ائے تو ملکہ کو پھر پریشان پایا تب پوچھنے پر ملکہ نے دن کو ہونے والا سارا واقعہ ان کے سامنے بیان کر ڈالا تب بادشاہ بہت زور سے ہنسنے لگاجس سے ملکہ کی بے چینی اور پریشانی میں اور بھی اضافہ ہوا کہ غصہ کرنے یا مجھے سمجھانے کے بجائے بادشاہ ہے کہ بس ہنستا جا رہا ہے۔

تب بادشاہ نے ملکہ کی پریشانی کو بھانپ کر اسے سارا ماجرہ بیان کرتے ہوۓ سمجھایا کہ دراصل محل کی صفائی تزین و أرائش کا کام چل رہا ہے تو اس دوران تمام مزدوروں اور غلاموں کے کام اور رہائش کی جگہ عارضی طور پر دوسری جگہ منتقل کی گئ تھی۔

لہزا کچن کی صفائی ستھرائی کے وقت عارضی طور پر باورچی خانے کو محل میں ایک ایسی جگہ منتقل کیا گیا تھا جہاں پوری مملکت کا خزانہ نیچھے زیر زمین چھپایاگیا ہے چونکہ مزکورہ خاندان نے کچن کا انتظام سنبھالا ہوا ہے تو نئ جگہ خزانے کے اثرات نے عارضی طور پر ایسے اثرات چھوڑے کے وہ غلام سمجھ نہ پائے کے أخر ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور ان کے مزاج میں یہ تبدیلی کیسی ہے۔

اب چونکہ وہ دوبارہ اپنی اصل جگہ پر أگئے ہیں تو اب ان کو سمجھ نہیں ارہا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا تھاظاہر ہے جوہمیشہ سے غلام اور نچھلے طبقے کے لوگ رہے ہوں انھیں ریاست ہو خزانہ ہو حکمرانی یا کچھ اور انھیں ایسی باتیں بھگاڑ دیتی ہیں مجھے تو پہلے ہی دن اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ بیچارے اس کیفیت کا شکار ہیں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
بلکہ ابھی جاؤ ان سے ملکر تسلی دو کے بادشاہ نے انھیں معاف کردیا ہے۔

وہ لڑکا بیچ راستے میں اس لئے واپس ہوا جب اونٹ کے مالک نے کہا کہ اس اونٹ کی پڑ نانی میں یہ عادت تھی تو اسے یہ سمجھ أیا کہ عادتیں نسلوں کا پتا دیتی ہے، أج اگر میں کسی کو بھگا کر شادی کر لیتا ہوں تو کل میری نسل سے بھی کھبی نہ کھبی کوئ نہ کوئ ضرور بھاگے گا اور بھاگ کر شادی کرلے گا۔ لہزا شہزادے نے اپنی نسل کو بچانے کی خاطر بھاگ کر شادی کرنے کے بجائے مرنے کو ترجیح دی۔
دوسری کہانی کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جس نے کھبی حکمرانی اور امیری نہ دیکھی ہو اسے امور و أداب ء حکمرانی کا کیا پتا؟۔اور وہ امیری و عزت کا بوجھ کہاں اٹھا سکتا ہے۔

یہ دونوں کہانیاں پنجابی، پاکستان اور بلوچ کا مزاج بتانے کے ساتھ ساتھ ریاستی ڈیتھ اسکواڈز اور مخبروں کی حقیقت بتانے کے لئے کافی ہیں کہ پنجابی کی تاریخ کھبی بھی حکمرانی کی نہیں رہی ہے۔ چاہے مغل ہوں، افغان ہوں، رنجیت سنگھ یا پھر برطانیہ و امریکہ یہ ہمیشہ غلام رہنا اور مانگنا جانتے ہیں۔وسائل میں فلوقتی گندم موسم میں دھند اور نام ونہاد خشک پانچ دریاؤں کے اور ان کے پاس ہے ہی کیا؟۔
اسی لئے أج یہ اپنے ایک اور أقا چین کے پیچھے لگ کر سیندک و گوادر سمیت بلوچ وسائل کو جس حساب سے لوٹ رہے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔

پنجابی ہو یا مقامی مخبر و ڈیتھ اسکواڈز بہت سوں کے نسلوں کو دیکھے وہ مخبر ہی چلتے أئے ہیں۔خان مھراب خان سے لیکر نواب خیر بخش اول تک، عبدالکریم سے لیکر بالاچ مولا بخش تک بلوچ نے مزاحمت ، جدوجہد کی ہی تاریخ رقم کی ہے۔

پچھلے سال پچاس دنوں کے بلوچ مسنگ پرسنز اجتماعی قبروں مسخ شدہ لاشوں اور جعلی مقابلوں و ماورائے عدالت قتل عام کے خلاف احتجاج و دھرنوں کے دوران مسنگ پرسن شبیر بلوچ کی بتھیجی شاری بلوچ شیرخوار بچی تھی اب میں دیکھ رہا ہوں وہ نہ صرف بڑی ہوئ ہے بلکہ تربت دھرنے میں اپنی باہمت والدہ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور پلے کارڈ و تصاویر ہاتھ میں لیے ریلی کے ساتھ ساتھ نہ صرف چل رہی ہے بلکہ نعرے بھی لگا رہی ہے اور نعروں کا جواب بھی دے رہی ہے۔

لہزا دنیا کو خاص کر بلوچ دشمنوں کو یہ سمجھ جانا چاہئے کہ مخبری، ڈیتھ اسکواڈز، أپریشنز ماوراۓ عدالت قتل , بلوچ قومی وسائل کی لوٹ مار بلوچوں کو شکست نہیں دے سکتے۔

شاری جنگ کی پیداوار ہے، أپریشنز کی پیداوار ہے۔ وہ اس جنگ ظلم و زیادتی کو خود اپنی انکھوں سے دیکھ رہی ہے وہ تحریک کی جدوجہد کی پیداوار ہے وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ اس کی ماموں شبیر بلوچ عقوبت خانوں میں کس کے پاس ہے اور وہ کس حالات سے گزر رہا ہے ۔ آج کی لیڈر تو شاری بلوچ ہے جو مزاحمت کی پیداوار ہے۔
أنیوالی نسل شاری کی پیداوار ہوگی جو اپنی جہد اور تاریخی مقام کا خود تعین کرینگی۔

گزشتہ پچھتر سالوں نے خاص کر گزرے ہوئے تیعیس سالوں نے یعی ثابت کیا ہے کہ تربت سے لیکر خضدار تک شاری بڑی ہوکر تجربہ کار بن گئ ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔