جبر کے سائے تلے بلوچ ماؤں کی کہانی ۔ کامریڈ وفا بلوچ

154

جبر کے سائے تلے بلوچ ماؤں کی کہانی

تحریر: کامریڈ وفا بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ جبری گمشدہ افراد کے لواحقین کا پچھلے ایک مہینے سے جاری بلوچ نسل کشی کے خلاف لانگ مارچ اپنے آخری پڑاؤ اسلام آباد تو پہنچ گیا لیکن انہیں انصاف دینے کے بجائے تشدد ؤ گرفتاریوں سے اُن کا استقبال کیا گیا۔

بالاچ مولا بخش کی جعلی پولیس مقابلے میں شرافت اور بلوچ نسل کشی کی خلاف لانگ مارچ تربت سے شروع ہوکر بلوچستان کے مختلف شہروں میں پڑاؤ کرتے ہوئے شال میں دھرنے دینے کے بعد کوہلو، رکھنی سے ڈیرہ غازی خان، تونسہ شریف اور ڈیرہ اسماعیل خان ہوتے ہوئے اسلام آباد پہنچ گیا۔ 19 دسمبر کو شام 5 بجے اسلام آباد ٹول پلازہ پہنچنے پر اسلام آباد پولیس نے مارچ کو زبردستی روک دیا ۔ لانگ مارچ کے شرکاء اور زمہ داراں خاص کر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے پولیس کو مکمل یقین دہانی کرائی کہ ہم بلکل پرامن احتجاج کریں گے اور دھرنا دیں گے۔

بلوچستان سے بوڑھے مائیں اپنے آئینی اور قانونی مطالبات اس ریاست کے اختیار داروں کے سامنے پیش کریں گے۔ مارچ کے شرکاء مکمل پرامن طریقے سے طویل مسافت طے کر کے اپنی آخری منزل تک پہنچ گئے تھے اور پچھلے بیس دنوں سے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کا احتجاجی کیمپ لگا ہوا ہے وہاں جاکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔

اسلام آباد پولیس نے لانگ مارچ کے تھکے ماؤں، بزرگوں کو دھوکہ دہی سے گھنٹوں تک ٹول پلازہ پر کاغذی کاروائی کے اندراج کے نام پر روکے رکھا اور جب لانگ مارچ کے منتظمین نے سارے کوائف بتا کر آگے چلنے پر اصرار کیا، انہیں اجازت دیکر چونگی 26 نمبر پر قافلے کے آگے پھر روڈ بلاک کر دیا اور لانگ مارچ کو آگے جانے نہیں دیا گیا۔

اسلام آباد کی بلوچ ماؤں کے ساتھ ظلم کی داستان نئی نہیں ہے بلکہ سالوں سے یہ ظلم کے داستان بلوچستان میں ہر روز وقوع پزیر ہورہے ہیں۔ 25 دنوں سے مسلسل سفر اور ہر علاقے میں احتجاجی مظاہرہ کرنا، گھنٹوں گھنٹوں شاہراہوں پر پیدل چلنا، نعرہ بازی کرنا، اپنا درد سنانا، آہ و زاریاں کرتے ہوئے آخرکار قافلہ اسلام آباد پہنچایا لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ یزیدوں کا شہر تاریخ میں ظلم کا دوسرا کوفہ بن جائے گا۔ کمزور اور تھکاوٹ سے چور ماؤں، بہنوں، بچوں بچیوں اور بزرگوں کو مغرب 5 بجے سے اسلام آباد کہ سخت سردی میں رات 3 بجے تک روڈوں پر بیٹھائے رکھا۔ ظلم کا داستان یہان ختم نہیں ہوا پھر آدھی رات کو حملہ آور ہوکر ان نڈھال ماؤں بہنوں بچوں اور بزرگوں پر لاٹی چارج، آنسو گیس شیلنگ اور لاتوں مکھوں سے مار کر انہیں گرفتار کیا گیا۔

ریاست اُن بلوچ ماؤں پر طاقت آزمائی پر اتر آیا جو پچھلے 25 دن سے مسلسل سفر کرتے آرہی ہیں اور اسلام آباد کی شاہراہ پر 12 گھنٹے سے بغیر پانی اور کھانا کھائے بیٹھے تھے ۔ اسلام آباد پولیس نے اِن بلوچ ماؤں پر اپنا حیوانی خصلت دکھا کر ہاتھ اٹھایا ہے جو کہی سالوں سے اپنے پیاروں کے جدائی میں آنسو بہا رہی ہیں لیکن اُن پر تشدد اور گرفتاریوں نے یہ ثابت کیا کہ بلوچ قوم کا اس ریاست سے تعلق حاکم اور محکوم کا ہے۔

بلوچ ماؤں کے ساتھ ظلم کا داستان ختم نہیں ہوا بلکہ رات 3 بجے ان بزرگوں کو گرفتار کر کے مختلف تھانوں میں قید کیا گیا اور انہیں انہیں جسمانی ؤ ذہنی اذیتیں دی گئی۔ قید میں انہیں بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ۔ انہیں ذہنی ٹارچر کرنے کے لیے ایک پاگل عورت کو اُن کے ساتھ قید کیا گیا، یہ لانگ مارچ میں شامل ماؤں بہنوں اور بچیوں کو ذہنی ٹارچر کرنے کے لیے کیا گیا۔ اگلے دن عوامی ردعمل سے بچنے کیلئے جھوٹی بیانات دیے گئے کہ تمام بلوچ عورتوں کو رہا کردیا گیا ہے لیکن عدالتی احکامات اور ضمانت منظور ہونے کے باوجود وویمن تھانہ G7 میں لاکر ان کی تمام کوائف لکھے گئے، انہیں دھمکایا گیا، ان کے پروفائلنگ کی گئی اور انہیں زبردستی بلوچستان بدر کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔

لانگ مارچ کے شرکاء نے اسلام آباد پولیس کے جبر کے سامنے جھکنے سے انکار کیا اور مارچ کے رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ریاستی اداروں پر واضع کیا کہ آپ ہم عورتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہمارے مردوں کا مقابلہ کیسے کرو گے۔ ہم تمام تکالیف اور مشکلات کو برداشت کر کے اسلام آباد آئے ہیں اپنے مطالبات منوانے کیلئے لیکن اب آپ ہمیں زبردستی بلوچستان بھیجے کی کوششیں رہے ہیں۔ ہم کسی صورت واپس نہیں جائیں گے۔ ہم پریس کلب جائیں گے، اپنا دھرنا دیں گے اور اپنے جبری گمشدہ افراد کے لیے اپنا احتجاج ریکارڈ کریں گے۔

اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں نے لاتوں مکھوں سے بوڑھے ماؤں اور بچیوں کو زبردستی کوچوں میں بٹھایا۔ بچیوں کی چیخ و پکار سے آسمان بھی لرز اٹھا۔ اردگرد کے سارے لوگ تھانے کی حدود میں جمع ہو گئے لیکن اسلام آباد کے پولیس اہلکاروں نے انہیں کوچوں میں بٹھاکر دروازہ بند کردیے ۔ انسانی حقوق کے نمائندہ اسد اقبال بٹ نے کوچز کے سامنے کرسی پر بیٹھ کر انہیں زبردستی بیجھنے سے روکے رکھا اور نامور صحافی، اینکر پرسن حامد میر ؤ عاصمہ شیرازی بھی تشریف لائے اور اپنے آنکھوں سے پولیس کا جابرانہ رویہ دیکھا۔

عوامی ردعمل اور کوچ ڈرائیور نے کوچ چلانے سے مکمل انکار کیا اور لانگ مارچ کے شرکاء کی مسلسل مزاحمت نے اسلام آباد پولیس کو مجبور کیا کہ وہ انہیں زبردستی بیجنے کا فیصلہ واپس لیں ۔

دو سو سے زیادہ بلوچ خواتین اور طلباء پولیس کی تحویل میں ہیں اور عدالتی احکامات کے باجود پولیس اُنہیں چھوڑنے کے لئے لیت و لعل کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔

کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ جبر کے نظام کے ساتھ مزاحمت کا تسلسل بھی جاری رہے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔