تربت جعلی مقابلہ: 13 ویں روز ریلی اور مظاہرہ، چوک کا نام بالاچ نام سے منسوب

204

تربت میں منگل کے روز بالاچ مولابخش چوک پر احتجاجی دھرنا دیا گیا ۔ جہاں شرکا سے خطاب کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے جنرل سیکرٹری سمی دین نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لوگوں کو خاموش رہنے کے بجائے آواز اٹھانا چاہیے اور تمام لاپتہ افراد کی فوری رجسٹریشن کی جانب جانا چاہیے جب تک ہم لاپتہ افراد کی رجسٹریشن نہیں کرائیں گے نہ صرف یہ سلسلہ نہیں رکے گا بلکہ ان کے ماورائے عدالت قتل بھی آسان ہوگا کیوں کہ کسی کے پاس جب لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات ہی نہیں ہے تو ان کو جب چاہیں حراست میں قتل کردیں۔

انہوں نے کہاکہ لاپتہ افراد کی رجسٹریشن سے ہم دنیا کو ان کے بارے میں آگاہ کریں گے کہ یہ شخص کون ہے اور کب کیسے لاپتہ کیا گیا ہے اس سے ان کی زندگی کم از کم جعلی مقابلے میں قتل سے محفوظ رہ سکتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ جن لوگوں کے پیارے سالوں سے لاپتہ ہیں وہ اس کرب اور درد کا اندازہ لگاسکتے ہیں ہم نے پندرہ سالوں میں چوک اور چوراہوں پر انصاف طلب کیا مگر یہ ہماری بے بسی کی انتہا ہے کہ ہم انصاف کا مطالبہ انہی سے کررہے ہیں جو خود لاپتہ کرنے کے ذمہ دار ہیں یہاں نہ عدالت آزاد اور نا ہی میڈیا آزاد ہے۔ ہمیں اپنی جنگ خود لڑنا ہے اپنا زبان خود بننا ہے اپنی طاقت اور اتحاد سے عالمی اداروں کو اپنی بات سنانا اور انصاف طلب کرنا ہے۔

دھرنا سے لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جن کے پیارے برسوں سے لاپتہ ہیں اور انہیں کوئی خبر بھی نہیں کہ ان کی کیا حالت ہے تو ایسا درد اللہ کسی کو نصیب نہ کرے ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے پیارے کہاں اور کس اذیت سے دوچار ہیں ہم پر جبر کے تمام پہاڑ گرائے گئے ہیں ہمیں بے بس بنایا گیا ہے چوک اور چوراہوں پر کھڑے رہنا ہماری مجبوری ہے، لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو چاہیے کہ وہ اپنی طاقت اور توانائی یکجا کریں ورنہ ہم اکیلے رہ کر یونہی دربدر رہیں گے۔

دھرنے سے صبغت اللہ شاہ جی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ اپنی ہی زمین پر غیروں کے ہاتھوں بے کس اور بے بس بنایا گیا ہے، کم ظرفی کی انتہا ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ ہمارے قاتلوں اور اغوا کاروں کی سہولت کار بن گئے ہیں یہ بلوچیت کا نچلا ترین درجہ بلکہ ایسے لوگ بلوچ کہلانے کے قابل ہی نہیں ہیں۔

انہوں نے کہاکہ بالاچ بلوچ تاریخ میں مزاحمت اور خود شناسی کا ایک ایسا استعارہ بن گیا ہے جسے مٹانا ممکن ہی نہیں ہے ہر 50 سالوں میں کہیں سے ایک بالاچ اٹھ کر تاریخ کا پھانسا پلٹتا اور مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کرتا ہے اس لیے میرا مشورہ ہے کہ بالاچ کو اب ہاتھ لگانے سے گریز کیا جائے یہ ان کے مستقبل کے لیے ہی بھتر ہے انہوں نے کہا کہ آج سے آپسر کا یہ چوک بالاچ کے نام سے منسوب ہے اور اسے بالاچ چوک کہا جائے۔

انہوں نے ہائی کورٹ بلوچستان کی جانب سے ایس ایچ او تربت کو معطل کرنے کے فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کبھی ایس ایچ او کو معطل کرنے کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ ہم نے شروع دن سے سی ٹی ڈی کے خلاف ایف آئی آر ان کے افسروں کو گرفتار اور سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

دھرنا منتظمین نے کہاکہ کل صبح تربت سے ریلی کی صورت کوئٹہ کی طرف مارچ ہوگا، پنجگور، خضدار ہمارے اگلے منزل ہیں جہاں بلوچ قوم سے بھرپور شرکت کی اپیل کرتے ہیں۔