چیئرمین بی ایس او بالاچ قادر نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں بلوچ مظاہرین کے ساتھ ریاستی رویہ نے اس بات پر مہر لگائی ہے کہ بلوچ کیلئے پرامن جدوجہد کے تمام دروازے بند کردیے گئے ہیں۔ کیچ سے پرامن لانگ مارچ کے شرکاء یہ امید لیکر گئے تھے کہ وہاں انکی درد بھری داستان کو سناجائے گا مگر استعماری قوتوں نے ہمیشہ کی طرح تشدد کا استعمال کیا۔
چئیرمین بی ایس او نے کہا کہ بلوچ نسلی کشی کے خلاف لانگ مارچ کے شرکاء پرامن تھے۔ شرکاء میں وہ لواحقین شامل ہیں جو سالوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ پرامن مظاہرین پر بدترین تشدد اور اغواء کاری سے ثابت ہوا کہ بلوچستان سے متعلق ریاستی پالیسی سوتیلی ماں کی ہے۔ بلوچ زمین کے وسائل پر سودا کرنے والوں کو یہاں رہنے والے لوگوں کی آہ و پکار بھی برداشت نہیں ہوتی۔
انھوں نے کہا کہ پولیس نے مجبور بلوچ عورتوں سے کون سا خطرہ محسوس کیا جن کی لانگ مارچ کو پہنچتے ہی محاصرہ کیا گیا۔ اسلام آباد میں جن لوگوں نے ریاستی املاک کو نقصان پہنچا کر تشدد کا راستہ اختیار ان میں پیسے بانٹ دیے گئے جبکہ بلوچ کیلئے جمہوری جدوجہد بھی ممنوعہ ہے۔ یہاں ناراض بلوچوں کا رٹ لگایا جاتا ہے لیکن کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ اس طرح کا پرتشدد ریاستی رویہ جائز ہے؟ ریاستی اداروں کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے طاقت کے نشے میں مبتلاء ہوکر مظلوموں کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔ کل کا واقعہ نہ صرف قابل نفرت ہے بلکہ اس رویے سے اسلام آباد نے واضح کردیا کہ بلوچ سے انکا رشتہ ظالم و مظلوم کا ہے۔
چئیرمین بی ایس او نےکہا کہ جب بھی بلوچ اپنے آئینی حقوق کیلئے تحریک چلاتے ہیں تو میڈیا میں جعلی بیانیہ بناکر اسے ناکام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ لیکن یہ جدوجہد رکنے والی نہیں ہے ہمارے لیے اب تمام دروزے بند کردیے گئے ہیں سیاسی مزاحمت کا راستہ روکا نہیں جاسکتا۔
چئیرمین بی ایس او نے کل بلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دیتے ہوئے کہا کہ اگر تمام گرفتار لوگوں کو رہا نہ کیا گیا تو احتجاج کو مذید وسعت دیکر تمام مرکزی شاہراؤں کو بلاک کریں گے۔