بلوچ لاوارث نہیں
تحریر: درپش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
پاکستان کے فوج ، اُنکے بنائے ہوئے نظام اور اسکے زر خرید ایجنٹوں کو اس بات کا اندازہ ہو چکا ہوگا کہ بلوچ لاوارث نہیں ہیں جتنے بھی بلوچوں کو شہید کیا ہیں جتنے بھی بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی ہیں اور جتنے بلوچ اُنکے قیدقانوں میں قید ہیں کوئی بھی لاوارث نہیں، اب کوئی یہ نہیں کہہ پائے گا کہ فلاں جگہ پر لاوارث مسخ شُدہ لاش ملا ہے، اب کوئی یہ نہیں کہہ پائے گا کہ فلاں ہسپتال کے مُردہ خانے میں لاوارث لاش رکھا گیا ہے۔ شہید بالاچ بلوچ کی بہن نے بہادری کیساتھ ہمت دکھا کر پورے بلوچ قوم کے سامنے یہ ثابت کردیا کہ ہم لاوارث نہیں ہیں.
لاوارث وہ ہوتے ہیں جن کے ساتھ کوئی نہیں ہوتا لاوارث وہ ہوتے ہیں جن کے پاس کُچھ نہیں ہوتا لاوارث وہ ہوتے ہیں جو دوسروں کے ٹکڑوں پہ جی رئے ہوتے ہیں ہم نہ کبھی لاوارث تھے نہ لاوارث ہیں اور نہ ہی لاوارث رہیں گے ہمارا اپنا ایک شناخت ہے ہمارے ساتھ ہمارا پورا قوم کھڑا ہے۔ ہمارے پاس ہمارا اپنا سرزمین ہے جو ریکوڈک سیندک تیل گیس اور سینکڑوں معدینیات سے مالا مال ہیں
یہ جنگ جو کہیں دہائیوں سے لڑی جارہی ہے اس بات کا نشاندئی کرتا ہے کہ بلوچ لاوارث نہیں اگر بلوچ لاوارث ہوتے تو یہ جنگ کب کا ختم ہوچکا ہوتا۔
یہ جنگ ہمارے سرزمین کا جنگ ہے یہ جنگ ہماری ذندگی اور موت کا جنگ ہے۔ یہ جنگ آذادی اور غلامی کا جنگ ہے۔ یہ جنگ تب تک لڑی جائے گا جب تک ہم ایک آذاد قوم نہ بنیں گے یہ جنگ تب تک جاری رئے گا جب تک بلوچستان ایک آذاد ریاست نہ بنے گا ۔اب ریاستِ پاکستان اس خوش فہمی سے نکل جائے کہ وہ بلوچستان میں جتنا دل چائے چھاؤنیاں بنا سکتا ہیں جتنا دل چائے وہ بلوچوں کو گرفتار کر کے گمشدہ کر سکتا ہیں اور رات کے اندھیرے میں گھروں میں گُھس کر لوٹ مار کر سکتا ہیں بلوچ عوام کے دلوں میں خوف پیدا کرسکتا ہیں کیونکہ اب ایسا نہیں ہے اب کوئی بھی بلوچ اس فوج کےگنڈا گردیوں سے نہیں ڈرتا اس جنگِ میدان میں اترنے کیلئے بلوچ مرد اور عورتیں مکمل تیار ہیں۔
بالاچ مولابخش کو عدالت میں پیش کرکے پھر اُسکا قتل کرنا یہ دشمن ہمیں بتا رہی کہ وہ بلوچ کے معاملے میں کسی عدالتی نظام اور قانون کو نہیں مانتی،وہ ہمیں از قوم اور ہماری شناخت کو ختم کرنے کے لئے دنیا کی کسی قانون کو نہیں مانتی بلکہ ہمیں کھلم کھلا یہی پیغام دئے رہی ہے کہ میں تمہیں ختم کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہوں اور دنیا کی کوئی بھی قانون میرے سامنے کچھ بھی حثیت نہیں رکھتی ،اسی لئے روز بروز اپنی وحشت اور دہشت کو بڑھا رہی ہے،اور آگے اسے اور شدت کے ساتھ بڑھائیگی،کیونکہ یہ جنگ جتنی تیز ہوگی وہ اتنا ہی اپنی درندگی دیکھائے گی۔
وہ بالاچ کے نام سے ڈرتا ہے اب تک بلوچ تحریک میں کئی بالاچوں نے وطن کی دفاع کے خاطر قربانی دی ہیں اور دیتے رئیں گے پاکستانی فوج اور نام نہاد سی ٹی ڈی کو یہ مان لینا چائیے کہ اس وسائل اور سرزمین کا اصل وارث بلوچ ہیں۔
آج بلوچ لاوارث نہیں بلکہ پورا بلوچستان شعوری طور پہ جاگ رہا ہے،مکران سے لیکر کوہ سلیمان تک بلوچوں میں یہ شعور ابھار رہا کہ ہمارا دشمن ہمیں نیست و نابود کرنے کے لئے مختلف نظریات ،خیالات اور طرح طرح کی سوچوں سے ماوف کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ کئیں ہمارے خلاف زور اور تشدد کرہا ہے،کہیں ہمارے لوگوں کو لالچ دئے کر ہمارے جہد کے خلاف استعمال کررہا ہے ،کہیں ہمارے لوگوں کو جاہل بناکر انکی سوچوں کو سن کررہا ہے،کہیں ہمارے قوم کو خوف اور ڈر سے دبانے کی کوشش کررہا ہے،ان تمام حربوں کے باوجود بلوچ قوم میں یہ شعور اور تیزی کے ساتھ ابھررہا ہے کہ یہ سب سامراجی سازیشیں اور ہتکھنڈے ہیں۔جس کا ثبوت بالاچ کو عدالت میں پیش کرکے پھر شہید کرنے کے بعد بلوچ قوم کی شعوری تحریک ہے۔جس کی آواز کیچ سے شروع ہوکر پورے بلوچستان تک پہنچ چکا ہے۔۔اور ہر بلوچ مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔پورے بلوچستان میں یہی گونج سنائی دئے رہی ہے کہ مزاحمت زندگی ہے۔
واقعی مزاحمت زندگئ ہے،مزاحمت کے بغیر ہماری موت یقینی ہے،اگر ہمیں بحثیت قوم زندہ رہنا ہے تو مزاحمت ہمارے لے فرض اور اس مزاحمت کے لئے قربان ہونا ہمارے لئے عبادت ہونا چاہیے۔بحثیت قوم ہماری زندگی کا زامن یہی مزاحمت ہے ،اور ہمیں روز ہر لمحہ اس مزاحمت میں جدت اور شدت لانا ہے ۔ایک بات واضح ہے کہ اگر ہم مزاحمت کریں یا نہ کریں یہ ظالم دشمن ہمیں نیست و نابود کرنے کا سارہ بندوبست کرچکی ہے ،کیونکہ یہ قبضہ گیر کا قانون اور دستور ہے کہ وہ مقبوضہ قوم کو زیر اور نیست کرکے اپنے قبضے کو دائمی طور پر برقرار رکھے ،اسے ہر وقت یہی خوف رہتی ہے کہ جس پہ بزور قبضہ کیا گیا ہے وہ کہیں شعور اور قوت پاکر قابض کے خلاف بغاوت نہ کرئے،اسی لئے وہ ہر حال میں اسے ختم کرنے کی آخری کوشش کرتی ہے۔اسکی ثقافت،زبان،روایات ،معاشیت سب کو ختم کرکے اس پہ ہر حوالے سے قابض رہتی ہے۔
اسکو سماجی ،سیاسی اور اخاقی حوالے سے اپاہج کرکے اسکی زمیں پہ قبضہ روز بروز مضبوط کرتی ہے۔
اس لئے ہم بلوچوں کو اس ریاست کو کھبی بھی اپنا ریاست ماننا یا سمجھنا نہیں چاہئے۔حقیقت بس یہی ہے کہ وہ ظالم اور ہم مظلوم ہیں اور مظلوم کو خود کو ظالم سے بچانے کے لئے مزاحمت کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔