خواتین کو با اختیار بنانے کیلئے معاشی ترقی دینا اہم ہے، بدقسمتی سے بلوچستان میں خواتین کی لٹریسی شرح صرف 27 فیصد ہیں، پاکستان 47 بڑا ملک ہے جو ای کامرس سے منسلک ہے، کسی کو اپنے حق سے محروم رکھنا بھی تشدد کے ذمرے میں آتا ہے، معاشرے کی بہتری کیلئے تعاون اورخواتین کو درپیش مسائل کے حل کیلئے ایک دوسرے بلخصوص محکموں کی سطح پر خصوصی تعاون کی ضرورت ہے۔کام کی جگہ پر پرامن ماحول کی فراہمی کیلئے عملی اقدامات کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، بلوچستان میں خواتین کیلئے جگہ نہیں کیونکہ بڑی تعداد میں خواتین آگے آرہی ہے جو خوش آئند ہے، جب تک خواتین کو ترقی کے دوڑ میں شامل نہیں کیا جاتا اس وقت تک ترقی نامکمل ہے، بدقسمتی سے انصاف کی فراہمی میں ہمارا نمبر بہت پیچھے ہیں اس کے علاوہ خواتین اپنے حقوق سے محروم ہیں انہیں اعتماد کی بجائے خوف میں رکھا جاتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار سابق سینیٹر روشن خورشید بروچہ،نیشنل کمیشن آن ہیومین رائٹس بلوچستان کی ممبر فرخندہ اورنگزیب، ڈائریکٹر جنرل سوشل ویلفیئر طارق جاوید مینگل، بلوچستان کمیشن آن وومن سٹیٹس کی چیئرپرسن فوزیہ شاہین،مرسی کور کے پروجیکٹ منیجر خالد خان کاسی، عورت فانڈیشن کے ریجنل ڈائریکٹر علاﺅ الدین خلجی، ایوا اینڈ جی الائنس کی چیئر پرسن ثنا درانی ، کام کی جگہ پر ہراسمنٹ سے تحفظ کی ڈائریکٹر کی نمائندہ،مذہبی سکالر ڈاکٹر عطا الرحمن، ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے ارسلان منظور، ایس پی سٹی پولیس پری گل ترین، سمیڈا کے صوبائی چیف شکور احمد، بیف کے سینئر منیجر عظیم انجم، سٹیٹ بینک کے محمد علی و دیگر نے گزشتہ روز کوئٹہ میں مرسی کور، عورت فانڈیشن بلوچستان اور اینڈنگ وائلنس اگینسٹ ویمن اینڈ گرلز الائنس (ایوا اینڈ جی الائنس)نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر)، بلوچستان کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن (بی سی ایس ڈبلیو) کے تعاون سے صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف 16 روزہ اکٹیوزم کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر پہلا پینل ڈسکشن رکھا گیا جس میں خواتین کیلئے روزی روٹی کے مواقع اور ترقی، مارکیٹ تک رسائی و دیگر روابط، ای کامرس میں کامیابی کے عنصر کے طور پر گاہک کی مرکزیت، ای کامرس میں اقتصادی ترقی کے عوامل، بینک کی اہمیت اور بینک کم اکانٹس اور خواتین کے لیے قرض کی اسکیمیں کے علاوہ طلبا کے لیے اسکالرشپ (خاص طور پر لڑکیوں کے لیے)، الیکٹرانک کامرس اور کی فراہمی اور حکومت کی طرف سے عوام کے لیے اسکیمیں جیسے مسائل پر تفصیلی بحث کی گئی اور سوالات جوابات کا سیشن رکھا گیا۔
سول سوسائٹی کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوری عمل کو مضبوط بنانے اور معاشرے میں صنفی بنیاد پر تشدد کو کم کرنے کے لیے اہم ذریعہ کے طور پر اراکین پارلیمنٹ، قانون سازوں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہم آہنگی اور نیٹ ورکنگ قائم کرے۔
مقررین نے کہا کہ خواتین کو با اختیار بنانے کیلئے معاشی ترقی دینا اہم ہے، بدقسمتی سے بلوچستان میں خواتین کی لٹریسی شرح صرف 27 فیصد ہیں، پاکستان 47 بڑا ملک ہے جو ای کامرس سے منسلک ہے، کسی کو اپنے حق سے محروم رکھنا بھی تشدد کے ذمرے میں آتا ہے، انہوں نے کہا کہ معاشرے کی بہتری کیلئے تعاون کی ضرورت ہے خواتین کو درپیش مسائل کے حل کیلئے ایک دوسرے بلخصوص محکموں کی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ فوزیہ شاہین،ارسلان منظور، پری گل ترین، صادقہ صمد، صابرہ اسلام، ڈاکٹر عطا الرحمن و دیگر پر مشتمل پینل ڈسکشن رکھا گیا پینل نے خواتین اور لڑکیوں کے لیے سائبر سیکورٹی بیداری،سائبر کرائمز اور تحقیقات، بلوچستان خواتین کی حفاظت کی درخواست، بی سی ڈبلیو ایس کی طرف سے بلوچستان کے لیے خواتین کے حامی ایجنڈا جس میں کام کی جگہ پر ہراساں کرنا، اسلام اور صنفی بنیاد پر تشدد، خواتین کی ترقی کا محکمہ اور صنفی مساوات اور خواتین کی اقتصادی کے علاوہ بلوچستان میں بااختیار بنانے کی پالیسی پر تفصیلی بحث کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے استعمال میں احتیاط کی ضرورت ہے اس حوالے سے ڈیجیٹل سیکورٹی کو سمجھنا چاہیے، بلوچستان پولیس میں تبدیلی آرہی ہے عوام کا اعتماد بڑھ رہا ہے، کام کی جگہ پر پرامن ماحول کی فراہمی کیلئے عملی اقدامات کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، بلوچستان میں خواتین کیلئے جگہ نہیں کیونکہ بڑی تعداد میں خواتین آگے آرہی ہے جو خوش آئند ہے، جب تک خواتین کو ترقی کے دوڑ میں شامل نہیں کیا جاتا اس وقت تک ترقی نامکمل ہے، بدقسمتی سے انصاف کی فراہمی میں ہمارا نمبر بہت پیچھے ہیں اس کے علاوہ خواتین اپنے حقوق سے محروم ہیں انہیں اعتماد کی بجائے خوف میں رکھا جاتا ہے، فرخندہ اورنگزیب ،سابق سینیٹر روشن خورشید بروچہ اورڈائریکٹر جنرل سوشل ویلفیئر طارق جاوید مینگل نے کہا کہ ہم ایک پروگرام لا رہے ہیں سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ ایک ٹیسٹ منعقد کرایا جس میں 28 ہزار بچوں و بچیوں نے حصہ لیا چند کورسز کو ہم کوئٹہ لا رہے ہیں جو سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کا انقلابی قدم ہوگا۔انہوںنے کہا کہ ہمیں کوئی چیز چھپانی نہیں چاہیے کھل کر دل سے بات کرنے سے ہی ترقی کر سکیں گے، جو مسائل ہیں ان کی نشاندھی کی جائیں۔ جب تک خامیوں کی نشاندھی نہیں ہوگی اس وقت تک تبدیلی ممکن نہیں ہے۔