بانک کریمہ بلوچ : عہدِ جدید کا کلاسیک کردار – دل مراد بلوچ

400

بانک کریمہ بلوچ : عہدِ جدید کا کلاسیک کردار

تحریر: دل مراد بلوچ
سیکریٹری جنرل بلوچ نیشنل موومنٹ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قومی تاریخ میں ہمیں بانڑی اور گل بی بی جیسی امر خواتین کے کردار جا بجا نظر آتے ہیں جو قومی مقصد کے لیے محاذ میں لڑے، سماجی میدان میں امر کردار ادا کرتے رہے اور مردوں کے سماج میں اپنا نام نقش کرتے رہے۔ تعجب کی بات ہے کہ جب سماج آج کی نسبت “ترقی یافتہ ” یا “جدید” نہیں تھا تو ایسے کردار پیدا ہوتے رہے ، اپنا نام تاریخ کے صفحات پردرج کرتے رہے ہیں لیکن درمیانی تاریخ میں بتدریج خواتین کا کردار منظر سے غائب ہوتا گیا ـ سماج یک طرفہ طور پر مردوں کی دسترس میں چلا گیا۔

یہاں سوچنے کی بات ہے کہ خواتین کا کردار قومی تاریخ ، کلاسیک دور یا اساطیری داستانوں میں تو نظر آتا ہے لیکن درمیان میں وہ غائب ہوجاتے ہیںـ خواتین کا مزاحمتی کردار نایاب ہوں، وہ نقش دھندلا جائیں تو اس کی وجہ کوئی آسمانی وحی یا خدائی فرمان تو ہرگز نہیں ہوگا ـ غور کیا جائے تو اس کی وجوہات ہمیں اپنے حالات میں بخوبی نظر آتے ہیں ـ

خواتین کا کرداراس وقت سے بتدریج منظرسے غائب ہونا شروع ہوا جب یہاں انگریزی راج آیا، سردار کلاسک سے سنڈیمن زدہ بن گیا ـ سرداری ذاتی شجاعت ،بہادری اورقومی افتخار کے بجائے وراثت کے ذریعے منتقلی کاعمل شروع ہوا اور وہ سردار جو اپنا سرقومی افتخار کے لیے دار پر وارے جانے کا مشتاق تھا، انگریزی تنخواہ اس کی متاع جان بن گیا ـ قومی افتخار ہمیشہ کے لیے کوچ کرگیا۔ اس عمل کے بلوچ سماجی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہونا شروع ہوئے۔

قبضہ گیریت ہمیشہ قومی وسماجی نفسیات میں بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ بلوچ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ برطانوی راج سے خواتین کردارنایاب ہونے کا عمل شروع ہوا۔ سماج سنڈیمن زدہ سردار کے مکمل تصرف میں آگیا۔ سماجی نفسیات میں مکمل بگاڑ پیدا ہوا۔ یہ بلوچ سماج کی “اصل” نہیں نوآبادی قوتوں کی مسلط کردہ نفسیات تھی جس سے ہمارا سماج تیزی سے پدرشاہی کی جانب چلا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ بلوچ سماج میں اساطیری اور کلاسیک کردار تو نظر آتے ہیں لیکن درمیانی تاریخ میں کوئی کردار خال خال ہی نظرآتا ہے۔ وجہ؟ ، وجہ صاف ہے۔ پہلے انگریز آئے اور ہمارے سماجی اور سیاسی نظام میں بگاڑ کا بیج بوگئے۔ پھر اسے انگریزی وراثت کے مالک پاکستان نے آگے جاری رکھا۔ پاکستان نے مذہبی لبادہ میں ملفوف نوآبادی تبلیغ شروع کی۔ ”عورت کا محافظ مرد ہے اور عورت مکمل انسان نہیں ہے“۔ اسے سماجی اور سیاسی میدان میں اور جنگی محاذ میں بالکل نہیں ہونا چائیے کیونکہ یہ نازک ہے ، تکلیف سہہ نہیں سکتی ، یہ بوجھ نہیں اٹھاسکتی ، یہ ذمہ داری نہیں نبھا سکتی ـ لہٰذا اسے گھر تک محدود ہونا چاہیے۔ بدقسمتی ۔ ۔ جی ہاں بدقسمتی سے ہم نے بڑی حد تک تسلیم بھی کرلیا اور عورت کو گھر کی زینت بننے پر مجبور کیا۔

مجبور عورت نے دیکھا ایک طرف سماج ہے ، ایک جانب سرکار ہے ، ایک جانب ریاستی مذہب ہے اور شاید عورت نے بھی تسلیم کرلیا کہ اتنے سارے لوگ غلط نہیں ہوسکتے اور اسی طرح وہ بھی گھر بیٹھ گئی۔

یہ عورت کی ہار نہیں بلکہ سماج کی ہار تھی، قومی شکست کہ آپ نے لڑے بغیر تسلیم کرلیا۔ یہ بلوچ کی اصل نفسیات یا تشخص نہیں تھا بلکہ بیرونی قوت کی مسلط کردہ نفسیات تھی۔ یہ سازش تھی کہ قوم کے آدھے حصے کو مفلوج بنایا جائے تو آدھے حصے پر راج کرنا مشکل کام نہیں۔ پاکستان نے یہی کیا اور ہم نے مان لیا۔

لیکن جب تحریک کا حالیہ فیز شروع ہوا تو ہم بحیثیت قوم اپنے اصل کی جانب مُڑ گئے۔ ہم نے اپنے کلاسیک اور اساطیری کردارپہچان لیے۔ ہم نے اپنی “اصل” نفسیات ،تشخص کو کھوج نکالا اور ہمیں احساس ہوگیا کہ ہمارے ساتھ تو ہاتھ ہوگیا ہے۔ ہمارا ایک بازو تو مفلوج بنایا گیا ہے۔ ہمیں ناکارہ بنایا جاچکا ہے ـ

یہ تحریک تھی کہ جس نے حقیقی معنوں میں ہمیں انسان بنایا ، جس سے مکمل انسان بننے کی سفر کا آغاز ہوا۔ یہیں سے بانک کریمہ کا جنم ہوتا ہے۔ وہ ہمیں انسان بنانے ، مکمل انسان بنانے کے جدوجہد میں شریک سفر ہوئیں کیونکہ کریمہ جانتی تھی کہ غلامی میں ، پاکستانی غلامی میں ، یا کوئی بھی قوم غلام ہوکر انسان مکمل انسان نہیں بن سکتا ـ غلام کا کلچر اپنا نہیں ہوتا، اس کی نفسیات اپنی نہیں ہوتی، اس کی ہرشئے میں ملاوٹ ہوتی ہے۔ ملاوٹ قبضہ گیر کرتا ہے ،ملاوٹ بالادست قوت کرتا ہے تاکہ قوم ، قومی نفسیات خالص نہ رہے ، وہ ایک سطحی آدمی تو رہے لیکن انسان نہ رہے۔

اپنے جڑوں سے کٹا آدمی مزاحمت کی قوت سے محروم محض تابع فرمان ہوتا ہے۔ اپنے زیردستی کے احساس سے بھی محروم ہوتا ہے۔ اسے یہ پٹی پڑھائی جاتی ہے کہ یہ تمھاری تقدیر ہے جو ازل سے لکھی گئی ہے۔ اس میں ترمیم یا رد و بدل آپ کے بس سے باہر ہے ـ

کریمہ نے اسی نفسیات کو ، قابض کے لکھی تقدیر کو چیلنج کیا اور مکمل انسان بننے کے لیے تحریک کاحصہ بن گئی ـ انہوں نے جب فیصلہ کیا تو اٹل رہی ـ بہادر تو تھی ہی، دشمن کے براہ راست مدمقابل آئی انہوں نے مقابلہ تو کیا لیکن نام سے زیادہ انہیں کام پیارا تھا۔ْ انہوں نے خود کو کبھی نمایاں نہیں کیا بلکہ پوری زندگی تنظیم کو دی۔ صلاحیتیں تنظیم کاری میں جٹا دیں ـ کامریڈوں کی تربیت کی ، سماج کے تمام فکر کے لوگوں کے پاس گئی ، بلوچستان کے کونے کونے میں گئی اور جہاں جہاں بلوچ کی آواز نہ پہنچ پائی وہاں کریمہ پہنچ گئیں ۔ وہ خطرات سے دوچار تھی ، بدتہذیب دشمن ان کی پیچھے تھا ، لیکن انہیں اس کی ذرہ برابر پرواہ نہ تھی۔ انہیں اپنے مقصد سے غرض تھا ، مقصد پر مرمٹنے کا جذبہ تھا ۔

جلاوطنی کا سفر بھی ذاتی آسائش کے لیے کوئی فردی فیصلہ نہیں تھا ـ یہ تحریک کے لیے تھی ، انہوں نے وہاں بھی کام کیا ۔ اپنی بساط سے زیادہ کام کیا اور دیار غیر میں اپنی جان کی قربانی دی لیکن اپنے کردارکو لازوال بنا گئی ـ انہوں نے جان کی قربانی تو دی ،لیکن اپنے صاف شفاف اور روشن کردار پر کوئی داغ نہ لگنے دیا۔ انہوں نے اپنی جان کی قربانی تو دی لیکن اپنے پیچھے ایک لمبی وراثت چھوڑ گئی آج وہ وراثت ہمیں بلوچ وطن کے کونے کونے میں واضح نظر آتی ہے ـ آج سمی کی صورت میں ،ماہ رنگ کی صورت میں ،صبیحہ کی صورت میں ،شلی کی صورت میں ۔۔۔۔ہر بلوچ جنک کی صورت میں ، ہر بلوچ بیٹے کی صورت میں مزاحمت کر رہا ہے ـ بدی کے خلاف ، بدی کی قوتوں کے خلاف ، قابض کے خلاف ، قبضہ گیریت کے خلاف ، قابض کے مسلط کردہ نفسیات و روایات کے خلاف جنگ جاری ہے اور یہ جنگ اپنی منزل تک جاری رہے گی ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔