اسلام آباد پولیس نے لانگ مارچ پر کریک ڈاون کرکے شرکاء سمیت سینکڑوں نوجوانون کو نامعلوم مقام پر رکھا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی اسلام آباد

264

بلوچ یکجہتی کمیٹی اسلام آباد کے ترجمان نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچ نسل کشی کے خلاف جاری لانگ مارچ کل رات اسلام آباد کے حدود میں داخل ہونے والی تھی کہ اسلام آباد پولیس نے لانگ مارچ کے شرکا کو تین گھنٹوں سے زائد ہزاروں پولیس کی نفری کے ذریعے روکے رکھا۔ لانگ مارچ کے شرکاء نے چنگی نمبر 26 پر دھرنا دیا اور روڈ کے ایک سائیڈ اپنے بسترے لگا کر سونے لگے۔ دوسری جانب پریس کلب پر پچھلے پچیس دنوں سے احتجاجی کیمپ بھی جاری تھا۔ رات کے اندھیرے میں اسلام آباد پولیس نے لانگ مارچ کے شرکاء اور پریس کلب میں بیٹھے مظاہریں پر دھاوا اور بدترین کریک ڈاون شروع کیا۔ جس بربریت اور جارحانی رویے کا اظہار لانگ مارچ کے شُرکاء اور احتجاجی کیمپ میں بیٹھے ہم نے دیکھا اس ظاہر یہی ہورہا تھا کہ وہ پُر امن مارچ اور احتجاجی کیمپ کو سبوتاژ کرنے کی نیت سے آئے تھے۔

ترجمان نے مزید کہا پریس کلب کے سامنے بیٹھے مظاہرین پر پولیس نے ڈنڈوں، پانی کے ٹینکروں، آنسوں گیسوں سے حملہ کیا اور اسی اثناء دوسری جانب لانگ مارچ کے شرکا پر بھی تشدد شروع کی۔ ہزاروں پولیس کی نفری نے بدترین تشدد کے بعد سینکڑوں بلوچ خواتین سمیت بچوں اور بوڑھوں کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا۔ اسلام آباد پولیس اور ریاستی اداروں نے بلوچ قوم کے ساتھ بربریت کی تمام حدیں پار کردی ہیں۔اس طرح کی گھناؤنی حرکت کہ بوڑھی مائیں ، بچّے ، عورت وہاں کیمپ میں خاموشی سے بیٹھے ہوئے تھے ، کچھ کھانا کھار تھے ، کچھ زخمی اور سورہے تھے ۔ لیکن پولیس کے روپ میں ان درندوں نے کچھ بھی نہیں دیکھا اور لاٹھیاں برساتے رہے ۔ عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں کی جو تذلیل ہوئی ہے اس کی اور کوئی مثال نہیں ملتی ۔

ترجمان نے مزید کہا ہیکہ ہم بلوچ عوام کو آگاہ کرتے چلیں کہ اس وقت 80 سے زائد بلوچ خواتین زیر حراست نہ معلوم مقام پر ہیں جن میں 3 خواتین تشدد کی وجہ سے نازک حال میں ہیں۔ اور 300 سے زائد بلوچ نوجوان اس وقت اسلام آباد سے گرفتار نامعلوم مقاموں پر منتقل کیے گئے ہیں۔ لانگ مارچ کے شرکاء ڈاکٹر ماہ رنگ سمیت اس وقت سینکڑوں نوجوان گرفتار ہیں جن سے کوئی رابطہ ممکن نہیں ہو پارہا ہے۔ ریاست کی جانب سے بلوچ قوم پر ظلم و جبر کی نئی داستان ایک نئی رخ کے ساتھ دیکھی گئی۔ بلوچ عوام سے درخواست ہے کہ اس وقت پولیس نے ہمارے تمام ساتھیوں کو گرفتار کر لیا ہے اور کسی سے بھی رابطہ ممکن نہیں ہورہا ہے۔ تقریباً ہمارے ساتھی جیلوں میں ہیں اور ہمیں معلوم نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں ۔

ہم انسانی حقوق کے ادارے اور تمام طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اور بالخصوص بلوچ عوام سے درخواست کرتے ہیں کہ اپنے اپنے گھروں سےنکل کر جہاں بھی موقع ملے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں۔اور بالادست قوتوں کو یہ باور کرائیں کہ عوامی طاقت کو کوئی بھی طاقت شکست نہیں دے سکتی ۔ ہم امید کرتے ہیں ایک پُر زور ردِ عمل سامنے آئے گا۔ہم مکُران تا ڈیرہ غازی بلوچ عوام سے پرزور ردِ عمل کی امید رکھتے ہیں