اسلام آباد: بلوچ جبری لاپتہ افراد لواحقین کا احتجاجی کیمپ، پولیس نے خار دار تاریں لگادی

347

گذشتہ دنوں بلوچ خواتین اور بچوں پر تشدد، گرفتاریوں کے بعد آج اسلام آباد پریس کلب کے باہر دھرنے اور احتجاج شروع ہونے کے موقعے پر اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری وہاں موجود ہے۔

انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ’اگر اس احتجاج میں شامل خواتین اور مظاہرین نے پریس کلب سے آگے جانے کی کوشش کی تو کارروائی کی جائے گی۔

اطلاعات کے مطابق اسلام آباد پولیس کی جانب سے ’پیس واک‘ سے روکنے کے بعد مظاہرین دوبارہ پریس کلب کے سامنے آ بیٹھے ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام لانگ مارچ کی خواتین شرکاءہفتے کی صبح اسلام آباد پریس کلب پہنچ گئے اور وہاں دھرنا دیا جبکہ اسلام آباد میں لانگ مارچ کے شرکاء کی گرفتاری اور ان پر تشدد کے خلاف بلوچستان کے مختلف علاقوں میں احتجاج کا سلسلہ تیسرے روز بھی جاری رہا۔

پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ میں آج گورنر بلوچستان نے شرکت کی ، اس موقع پر انسانی حقوق کے کارکن اور صحافی حامد میر موجود تھے۔

لانگ مارچ میں شریک جبری لاپتہ افراد کے لواحقین نے کہاکہ ہم جب اسلام آباد کی آرہے تھے یہی سمجھے کہ یہاں ہمیں سنا جائے گا لیکن ہمارا استقبال ڈنڈوں سے کیا گیا اور ہمیں یہ پیغام دیا گیا بلوچ اور ریاست کا رشتہ ظالم اور مظلوم کا ہے ۔

برطانوی نشریاتی ادارے سے فون پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بتایا کہ ’پر امن ہونے کے باوجود ان سمیت دیگر خواتین اور لانگ مارچ کے شرکاء کو تشدد کانشانہ بنایا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اسلام آباد پہنچنے کے بعد ان کو چونگی نمبر26 کے علاقے میں روکا گیا جس پر انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ وہاں دھرنا دیں گے لیکن پہلے پریس کلب کے باہر لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد چونگی نمبر 26پر لانگ مارچ کے شرکاء کو تشدد کا نشانے بنانے کے علاوہ ان کو بھی گرفتار کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مارچ کے شرکاء کو مارا اور گھسیٹا گیا اور اس کی ویڈیوز سب کے سامنے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’پہلے مارچ میں شریک خواتین کو مختلف تھانوں میں رکھا گیا لیکن بعد میں ان کو ایک تھانے میں لایا گیا۔