روزانہ کی بمباری، خوراک اور پانی کی قلت اور بڑے پیمانے پر بے گھر ہونے والے غزہ کے 24 لاکھ باشندوں کی حالت زار پر بین الاقوامی سطح پر تشویش میں اضافہ ہوا ہے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کے ہولناک نتائج سے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے الزام لگایا کہ اسرائیل “شہریوں کی بھوک کو جنگ کے حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے”۔
نیویارک میں قائم عالمی غیر سرکاری تنظیم نے کہا، “اسرائیلی فورسز جان بوجھ کر پانی، خوراک اور ایندھن کی ترسیل کو روک رہی ہیں، اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی ضروری امداد میں جان بوجھ کر رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے یہ الزام بھی لگایاہے کہ اسرائیل بظاہر زرعی علاقوں کو بمباری کا ہدف بنا رہا ہے۔
اسرائیل نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ ہیومن رائٹس واچ ایک “یہود مخالف اور اسرائیل مخالف تنظیم” ہے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ “ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیلی شہریوں پر حملوں اور 7 اکتوبر کے قتل عام کی مذمت نہیں کی اور اس کے پاس اس بارے میں بات کرنے کی کوئی اخلاقی بنیاد نہیں ہے کہ غزہ میں کیا ہو رہا ہے ۔”
حماس نے اس ضمن میں اعلیٰ اسرائیلی حکام کے بیانات کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ دیگر اسرائیلی حکام نے عوامی طور پر کہا ہے کہ غزہ کے لئے انسانی امداد یا تو حماس کی جانب سے غیر قانونی طور پر یرغمال بنائے جانے والوں کی رہائی یا حماس کی تباہی سے مشروط ہو گی۔
اسرائیل نے اس رپورٹ پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ فلپ لازارینی نے اس سے قبل کہا تھا کہ “ان کے لیے یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں ہوگی اگر لوگ بھوک، بیماری، اور کمزور قوت مدافعت کی وجہ سے مرنا شروع ہو جائیں ۔”
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ایک صحافی نے بتایا کہ اسرائیل نے مصر کے ساتھ رفح کراسنگ کے علاوہ اپنی کرم شالوم کراسنگ کے ذریعے غزہ میں امداد کی ترسیل کی منظوری دے دی ہے، اور پیر کو درجنوں ٹرک کرم شالوم کے راستے غذہ کی پٹی میں داخل ہوئے۔
بہت سے خاندان اس امید میں رفح کراسنگ پر جمع ہیں کہ آخر کار انہیں وہاں سے نکلنے کی اجازت مل جائے گی۔ صفا فتحی حماد نے بتایا کہ وہ وہاں تقریباً ایک ماہ سے ہیں۔ “ہم مرنے والے ہیں، خوراک بہت محدود ہے اور ہمیں کوئی تحفظ نہیں ہے۔”