اسرائیل اور حماس کی جنگ کے دوران یمن کے حوثی باغیوں نے بحیرۂ احمر سے گزرنے والے بحری جہازوں پر حملے تیز کردیے ہیں جس کے بعد دنیا کی اس اہم تجارتی گزرگاہ کے ذریعے تیل، اناج اور دیگر اشیا کی ترسیل متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
حوثی باغی بحیرۂ احمر (ریڈ سی) میں اسرائیل کے بحری جہازوں کو بھی نشانہ بنا چکے ہیں تاہم حالیہ کارروائیوں میں ناروے اور لائبیریا جیسے ممالک کے تیل لے جانے والے بحری جہازوں پر حملوں کے باعث عالمی تجارت متاثر ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
بحیرۂ احمر جزیرہ نمائے عرب اور افریقہ کے درمیان اہم تجارتی گزر گاہ ہے۔
مجموعی عالمی تجارت کے 10 فی صد ساز و سامان کی نقل و حرکت کے لیے یہ بحری گزر گاہ استعمال ہوتی ہے۔
بحیرۂ احمر میں حوثی باغیوں کے حملے سے عالمی تجارت متاثر ہونے کے آثار سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں کیوں کہ رواں ہفتے ہونے والے حملوں کے باعث دنیا کی سب سے بڑی شپنگ کمپنی ’میسک‘ نے جمعے کو اعلان کیا تھا کہ جنوبی بحیرۂ احمر میں رکاوٹوں کے باعث آئندہ اعلان تک اپنے جہازوں کا سفر معطل کر رہی ہے۔
جرمن شپنگ کمپنی ’ہیپیگ لائیڈ‘ نے بھی جمعے کو اپنے ایک جہاز پر حملے کے بعد پیر تک بحیرۂ احمر میں اپنے جہازوں کا سفر معطل کر دیا ہے۔
بحری تجارت کی ٹریکنگ کرنے والی کمپنی ’مرین ٹریفک‘ کے مطابق متاثرہ خطے میں تاحال متعدد بحری جہاز سفر کر رہے ہیں۔
بحیرۂ احمر میں حوثیوں کے حملے عالمی تجارت کو کس طرح متاثر کرسکتے ہیں؟ اس بارے میں یہاں اہم نکات کا احاطہ کیا جا رہا ہے۔
حملے کون اور کیوں کر رہا ہے؟
ایران نواز حوثی باغیوں نے 2014 میں دار الحکومت صنعا کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور اس کے بعد سے وہ سعودی عرب کی قیادت میں فوجی اتحاد سے برسرِ پیکار ہے جو یمن میں حکومت بحال کرنا چاہتا ہے۔
حوثی ماضی میں بھی خطے میں بحری جہازوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں تاہم اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد ان کی کارروائیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔
حوثی بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرونز اور اینٹی شپ میزائلوں کا استعمال کرتے ہیں جب کہ ایک موقعے پر انہوں نے اسرائیلی جہاز کو اور اس کے عملے کو یرغمال بنانے کے لیے ہیلی کاپٹر کا استعمال بھی کیا تھا۔
یمن کے حوثی دھمکی دے چکے ہیں کہ وہ اسرائیل سے آنے اور اس کی جانب جانے والے ہر بحری جہاز کو نشانہ بنائیں گے۔
کارروائیوں میں شدت کے بعد حوثیوں نے اپنے زیرِ انتظام سمندری حدود سے گزرنے والے بحری جہازوں کو مواصلاتی رابطہ کرکے راستہ تبدیل کرنے پر بھی مجبور کیا ہے۔
یورپی یونین کے دفتر برائے خارجہ پالیسی کے ایک بیان کے مطابق یمن میں حوثیوں کے زیرِ انتظام علاقوں سے ہونے والے حملے بین الاقوامی بحری راستوں اور میری ٹائم سیکیورٹی کے لیے خطرہ ثابت ہو رہے ہیں اور بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔
بحیرۂ احمر کیوں اہم ہے؟
بحیرۂ احمر کے شمالی کنارے پر نہرِ سوئز واقع ہے جب کہ اس کا جنوبی سرا آبنائے باب المندب سے ملتا ہے جو خلیج عدن سے بھی اسے ملاتی ہے۔
یہ دنیا کی مصروف ترین بحری گزر گاہوں میں شامل ہے جو نہرِ سوئز کے ذریعے ایشیا اور یورپ میں سامانِ تجارت کے نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
انٹرنیشنل چیمبر آف شپبنگ سے منسلک جون اسٹاپرٹ کا کہنا ہے کہ خام تیل اور ڈیزل سمیت یورپ کو ایندھن کی بھارتی مقدار اسی راستے سے فراہم کی جاتی ہے۔
ان کے مطابق یورپ کو ایندھن کی فراہمی کے لیے استعمال ہونے والے جہاز بین الاقوامی کمرشل فلیٹ کا 80 فی صد بنتے ہیں۔
اس کے علاوہ پام آئل، اناج سمیت غذائی اشیا اور دیگر خام مال کی بڑی تعداد بھی بحیرۂ احمر سے گزرتا ہے۔
حوثیوں کے حملوں سے تجارت کس طرح متاثر ہوگی؟
واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فور نیئر ایسٹ پالیسی کے فیلو نوم ریڈان حوثیوں کے حملوں کے باعث اسرائیل سے متعلقہ بعض بحری جہاز افریقہ کے گرد لمبا چکر کاٹ کر سفر کر رہے ہیں جس کے باعث ان کی مسافت میں 19 سے 31 روز کا اضافہ ہو گیا ہے۔
ان کے بقول اس تاخیر کے باعث تجارتی لاگت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
خام تیل کی عالمی مارکیٹ پر حوثیوں کے حالیہ حملوں سے کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ اس کے مقابلے میں آئل مارکیٹ کو بڑی معیشتوں میں گرتی ہوئی طلب کے باعث قیمتوں میں آنے والی کمی کا چیلنج درپیش ہے۔
حوثیوں کے حملوں کا سب سے بڑا فوری اثر انشورنس کی بڑھتی ہوئی لاگت کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بحیرۂ احمر سے گزرنے والی شپنگ کمپنیوں کے لیے انشورنس کی لاگت دگنی ہوگئی ہے جس کا اثر سفری لاگت پر بھی پڑے گا۔
گلوبل میری ٹائم صنعت سے متعلق ایک ماہر ڈیوڈ اوسلر کا کہنا ہے کہ خاص طور پر اسرائیل کے بحری جہاز چلانے والی کمپنیوں کے لیے انشورنس کی لاگت 250 فی صد بڑھ گئی ہے اور بعض کمپنیوں نے انھیں انشورنس فراہم کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
کیا حوثی بحیرۂ احمر کو بند کر سکتے ہیں؟
ماہرین کے مطابق اس بات کا امکان انتہائی کم ہے۔ ان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ حوثیوں کے پاس باقاعدہ بحری فوج نہیں ہے جو کسی بڑے بحری راستے کی ناکہ بندی کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس لیے حوثی صرف میزائل، ڈرونز اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے چھاپہ مار کارروائیوں کے ذریعے ہراساں کرنے ہی پر انحصار کریں گے۔
اس خطے میں امریکہ، فرانس اور دیگر اتحادیوں کے جنگی بحری جہاز راستے کھلے رکھنے کے لیے گشت کرتے رہتے ہیں۔
تاہم شپنگ چیمبر کے عہدے دار اسٹاپورٹ کے مطابق حوثیوں کے حملوں کے باعث شپنگ انڈسٹری میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ تاہم اس وقت بھی بحیرۂ احمر میں بڑے پیمانے پر بار بردار جہاز سفر کررہے ہیں جو یورپ اور ایشیا کے درمیان سپلائی لائن برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بحیرۂ احمر کی آبی گزر گاہ پر حوثیوں کا زیرِ اثر علاقہ بہت محدود ہے اور اس میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا نظر نہیں آتا۔
ان کے بقول اگر حوثیوں نے کارروائیاں جاری رکھیں اور ان میں مزید اضافہ کیا تو خطے کے ممالک کی جانب سے اس کا شدید ردِ عمل سامنے آسکتا ہے۔
خیال رہے کہ بدھ کو امریکی بحریہ کے ایک ڈسٹرائر جہاز نے حوثیوں کے لانچ کیے گئے 14 ڈرون حملوں کو بحیرۂ احمر میں مار گرایا تھا۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے مطابق ڈرون بحیرۂ احمر میں سفر کرنے والے جہازوں کو نشانہ بنانے کے لیے روانہ کیے گئے تھے جنھیں جوابی کارروائی میں تباہ کردیا گیا۔
اس کارروائی میں کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا تھا۔