آئیے مذمت مذمت کھیلتے ہیں
تحریر: نعیمہ زہری
دی بلوچستان پوسٹ
قابض و مقبوضہ کا رشتہ انتہائی منفرد ہوتا ہے جہاں ظالم اپنی طاقت کے نشے میں مگن زیر دست رعایا کو کبھی انکے حقوق دینے کو تیار ہی نہیں ہوتی۔ جہاں قوت بازو کو حاکم ہونے کا سرچشمہ تصور کیا جاتا ہے۔ جہاں مظلوم کو کبھی جینے کا حق نہیں دیا جاتا، جہاں اس کو آزادی سے اظہار رائے کا حق نہیں دیا جاتا ہے۔ جہاں آئین و قانون صرف مظلوم کو دبا کر اسکے معدنیات اس کے قومی وسائل اور حقوق کو غصب کیا جاتا ہے۔ اگر اسی رشتے کو بلوچ معاشرے میں دیکھیں جہاں پاکستانی ریاست اپنی قوت کو استعمال کر کے بلوچ قوم کو اپنے پاؤں تلے روند تو رہی ہے ساتھ ہی ساتھ انہیں اپنے آئین کے اندر طے شدہ حقوق کو بھی مانگنے کا حق نہیں دیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فرانز فینن اپنی کتاب “افتادگان خاک” جو کہ “ریچڈ آف دی ارتھ” کا ترجمہ ہے، اس میں کہتے ہیں کہ “قابض صرف تشدد کی ہی زبان سمجھتا ہے۔” کیونکہ وہ ہر طرح سے تشدد ہی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ چائے وہ لفظوں سے کی جانے والی تشدد ہو، میڈیا کے ذریعے مظلوم کو دبانے اور انکو نظر انداز کرنے جیسے تشدد ہو یا زندگی کے حق کو چھیننے کی نیت سے اپنے ہی عوام کو نام نہاد حفاظتی افواج کے ہاتوں سے غائب کر کے انکو اور انکے خاندان والوں کو دائمی اذیت سے دو چار کرنا ہو۔ تشدد کی شکل صرف بندوک اور چاقو کے استعمال سے نہیں بلکہ وہ ریاست کی طرف سے ہر شکل میں موجود ہوتی ہے اور اگر اس ریاستی جبر اور تشدد کا جائزہ اپنے بلوچ ماؤں اور بہنوں پہ کی جائے تو یہ بات بخوبی سمجھ آجائے گی کہ کس طرح ریاست اپنے گماشتہ اہلکاروں کے ذریعے سر انجام دیتا ہے جو کہ صحافتی لبادہ پہن کر مائیک کو بندوق کے بیرل کی طرح مظلوم کے منہ میں ٹھونس کر اپنی من چاہی جواب کے منتظر ہوتے ہیں۔
اور اگر انکو جواب مل بھی جائے تو وہ بس لاچار اور بوڑھی ماؤں کو اشتعال دینے کیلئے بار بار ایک ہی سوال کرتے ہیں اور انکو ہی مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر الزام تراشیاں اور مذمت کرنی ہی ہے تو آئیے مذمت مزمت کھیلتے ہیں؛ ہم آپکے من چاہی جواب دینگے لیکن پہلے آپ، بلوچ سرزمین (ریاست قلات) کی سرحدوں کو اپنے پاؤں تلے روند کر شاہی مسجد کے مینار کی توپ سے اڑانے کی مذمت کیجیے، پہلے آپ بابو شہزادہ کریم کو مذاکرات کے نام پہ بلوا کر جیل میں بند کرنے کی مذمت کریئے، بابو نوروز کو قرآن کے نام پہ دھوکہ دیکر پابند سلاسل کرنے اور انکے اولادوں کو تختہ دار پہ چھڑا کر شہید کرنے کی مذمت کیجیے۔ پہلے آپ ساٹھ کی دہائی میں مری اور بگٹی علاقوں میں خونریز آپریشنز کی مذمت کیجیے۔ پہلے آپ 1971 میں بنگالیوں کی براہ راست نسل کشی کی مذمت کیجیے۔ پہلے آپ 1973 میں بلوچستان پہ فوجی بربریت کی مذمت کیجیے۔ پہلے آپ ایرانی کوبرا ہیلی کاپٹروں سے بلوچوں پہ بمباری کی مذمت کیجیئے، پہلے آپ ستر کی دہائی میں ایک ہزار سے زائد مری بلوچوں کی بمباری سے قتل عام کی مذمت کیجیئے۔ پہلے آپ بلوچستان کے سینے کو چیر کر ایٹمی دھماکوں کی مذمت کیجیئے، پہلے آپ ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں ہزاروں لوگوں کو کینسر سے موت کے منہ میں جھونکنے کی مذمت کیجیئے۔ پہلے آپ بلوچوں کے پیاروں کو اٹھانے کی مذمت کیجیئے، پہلے آپ زرینہ مری کو انکی بیٹی کے ساتھ اٹھانے کی مذمت کیجیئے، پہلے آپ لاپتہ بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں کو پھینکنے کی مذمت کیجیئے۔ پہلے آپ بلوچ ماؤں اور عورتوں کو انکی گھروں سے نکال کر روڑوں پہ اپنے ہی پیاروں کو دیکھنے سے محروم کرنے کی مذمت کیجیئے۔ پہلے آپ اپنے رویے کی مذمت کیجیے جو بلوچ ماؤں کے ساتھ کی ہے۔ پہلے آپ بلوچوں کے معدنیات اور سائل و وسائل کے لوٹ مار کی مذمت کیجیئے۔ ہم بھی آپکو آپ کے من چاہی جواب دینگے پہلے جرات کر کے مذمت کرنے کا ارادہ تو کیجیئے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔