بھارت: کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا حکومتی اقدام برقرار

128

بھارت کی سپریم کورٹ نے نئی دہلی کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی پر حکومت کا اقدام برقرار رکھا ہے۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 2019 کے حکومتی اقدام کے خلاف دائر لگ بھگ 20 درخواستوں پر فیصلہ پیر کو سنایا۔

بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے روزانہ کی بنیاد پر ان درخواستوں کی سماعت کے بعد یہ سنایا ہے۔

چار سال سے جاری کیس کے فیصلے کے مطابق بھارت کی مرکزی حکومت کے ہر فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح مرکز بھی ریاستی حکومت کے اختیارات استعمال نہیں کر سکتی۔ حکومت نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے قوانین میں ترامیم کی ہیں۔

فیصلہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 370 عارضی اقدام تھا۔ یہ آرٹیکل جنگ کی صورتِ حال کے سبب آئین میں شامل کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھارت کے الیکشن کمیشن کو حکم دیا گیا کہ ریاست میں ستمبر 2024 تک انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو حکم دیا گیا ہے کہ کشمیر کی ریاستی حیثیت جلد از جلد بحال کی جائے۔

واضح رہے کہ چار سال قبل اگست 2019 میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کر دی تھی۔

اس کے ساتھ ساتھ اس خطے کو دو حصوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا تھا۔ ان دونوں علاقوں کو مرکزی حکومت کے ماتحت علاقے یعنی یونین ٹریٹری قرار دیا گیا تھا۔

اگست 2019 میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد وزیرِ اعظم نریندر مودی نے یقین دہانی کرائی تھی کہ مناسب وقت پر کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کر دی جائے گی۔

اس وقت وزیرِ داخلہ امت شاہ نے بھی اسی طرح کے بیانات دیے تھے۔ تاہم کسی بھی رہنما نے یہ واضح نہیں کیا تھا کہ ریاستی حیثیت کب بحال ہو سکے گی۔

بھارت کی حکومت اور بی جے پی کا مؤقف ہے کہ دفعہ 370 ایک عارضی آئینی شق تھی جسے بھارتی صدر صدارتی فرمان کے ذریعے منسوخ کر سکتے تھے اور پانچ اگست کو ایسا ہی کیا گیا۔

حکومت کے بقول اس تمام عمل کی توثیق بھارتی پارلیمنٹ نے بھی کثرتِ رائے سے کی تھی۔