یرغمالوں کی رہائی اور جنگ بندی معاہدے پر جمعے سے عمل درآمد ہو گا – اسرائیل

126

اسرائیل کی قومی سلامتی کے مشیر ساخی اینگبی نے کہا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی کے لیے ہونے والے معاہدے کے تحت جمعے سے قبل کوئی بھی یرغمالی رہا نہیں ہوگا۔

امریکہ، قطر اور مصر کی معاونت سے بدھ کو اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت فریقین نے 50 یرغمالوں کی رہائی کے بدلے چار روزہ جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا جب کہ معاہدے میں دیگر شرائط بھی موجود تھیں۔

اس معاہدے کے بعد یرغمال افراد کے اہلِ خانہ کو امید تھی کہ ان کے عزیز جمعرات سے واپس آنا شروع ہو جائیں گے۔ تاہم اب اسرائیل کی قومی سلامتی کے مشیر کا کہنا ہے کہ یرغمالوں کی رہائی کا عمل فریقین کے درمیان حقیقی معاہدے کے مطابق شروع ہوگا اور یہ سلسلہ جمعے سے شروع ہونا ہے۔

اسرائیل کے سرکاری میڈیا ’کان‘ نے ایک اعلیٰ اسرائیلی عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ معاہدے پر عمل در آمد میں 24 گھنٹوں کی تاخیر کی گئی ہے کیوں کہ اس معاہدے پر حماس کے عہدیداروں اور فریقین میں مذاکرات کے لیے معاونت کرنے والے ملک قطر کے حکام نے اس پر دستخط نہیں کیے۔

حکام نے کہا ہے کہ وہ پر امید ہیں کہ جب معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے تو اس پر عمل درآمد بھی شروع ہو جائے گا۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق مصر کے بعض اعلیٰ حکام نے قبل ازیں نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے پر جمعرات کی صبح مقامی وقت کے مطابق 10 بجے سے عمل در آمد شروع ہو جائے گا۔

’رائٹرز‘ کے مطابق اسرائیلی سرکاری میڈیا ’کان‘ نے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے دفتر کے ایک ذریعے کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ میڈیا کے علاوہ کسی نے بھی یہ نہیں کہا تھا کہ جمعرات کو یرغمالوں کی رہائی شروع ہو جائے گی۔ یا جمعے سے قبل کسی بھی یرغمالی کو رہا کیا جا سکتا ہے۔

اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ اسرائیلی فورسز بھی حماس کے خلاف جنگ بندی جمعے سے قبل نہیں کریں گی۔

رپورٹس کے مطابق حماس نے تاحال اسرائیل کو ان ناموں کی فہرست سے بھی آگاہ نہیں کیا جن یرغمال افراد کو ابتدائی مرحلے میں رہا کیا جانا ہے۔

واضح رہے کہ حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کر کے تل ابیب حکام کے مطابق 1200 افراد کو ہلاک اور 240 کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اسرائیل کے جوابی حملے میں غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 14 ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔

ڈیڑھ ماہ سے جاری جنگ میں حماس اب تک چار یرغمال افراد کو رہا کر چکی ہے جب کہ ایک یرغمالی خاتون کو اسرائیل نے بازیاب کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

فریقین کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت حماس کی تحویل میں موجود یرغمال افراد میں سے 50 خواتین اور بچوں کو رہا کیا جائے گا جب کہ اسرائیلی جیلوں میں قید 150 خواتین اور بچوں کو رہا کیا جائے گا۔

حماس نے یومیہ تقریباً 10 یرغمال افراد کو رہا کرنا ہے اور چار روز تک فریقین میں جنگ مکمل طور پر بند رہے گی جس کے دوران غزہ میں امدادی ٹرکوں کو آنے دیا جائے گا۔

واضح رہے کہ امریکہ اور بعض مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔ دوسری جانب ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے حماس کو سیاسی تحریک قرار دیا تھا اور حالیہ دنوں ایک خطاب میں کہا تھا کہ حماس غزہ میں انتخابات میں الیکشن میں منتخب ہوئی تھی۔

حماس کے ہاتھوں یرغمال بننے والے افراد کے اہلِ خانہ اور عزیز اسرائیلی حکومت پر مستقل یہ دباؤ ڈالتے رہے ہیں کہ وہ یرغمالوں کی بازیابی کو ترجیح دے۔

یرغمالوں کے اہلِ خانہ کو یہ بھی خوف ہے کہ اسرائیلی فورسز کی غزہ میں کارروائیوں سے ان کے پیاروں کی موت ہوسکتی ہے۔

گزشتہ ہفتے اسرائیل میں تل ابیب اور یروشلم شاہراہ پر ایک بڑا مارچ منعقد کیا گیا تھا جس میں یرغمال افراد کے اہلِ خانہ سمیت لگ بھگ 20 ہزار افراد شریک تھے۔مارچ کے شرکا کا مطالبہ تھا کہ یرغمالوں کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے۔

اسرائیل کی اتحادی حکومت کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو مستقل یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ تمام یرغمال افراد کو بازیاب کرا کر گھر واپس لایا جائے گا۔