کہیں یہ پاؤں نہ تھک جائیں
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
ایسا نہیں کہ بس شیما جی ان پروگراموں میں شامل ہو تی رہیں ہیں جن پروگراموں میں ریڈ کارپیٹ بچھا ہوا ہوتا ہے،اس ریڈ کارپیٹ پر اٹالین جوتے پہنے پیر چلتے ان ہالوں میں آتے ہیں جن کے وجودوں سے دلفیرب پرفیوم کی مہک اُٹھتی رہتی ہے۔گورے چہروں پر نیلی مصنوعی آنکھیں چمک رہی ہو تی ہیں۔اور ان کے بال دیکھ کر یہی گمان ہوتا ہے کہ ان سروں پر دولت کی بارش ہوا کرتی ہے۔جہاں اعلیٰ کوائیلٹی کا ساؤنڈ سسٹم نصب ہوتا ہے۔جن ہالوں میں آنے والے بھی خاص ہو تے ہیں اور جانے والے بھی خاص ہو تے ہیں۔وہ کوئی عوامی اجتماع نہیں ہو تے۔وہ خاص اجتما ع ہو تے ہیں جن میں بہت تھوڑے سے شخصوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔اور ان تھوڑے سے لوگوں کے درمیاں بھی ان خالی کرسیوں پر ایسی پرچیاں لکھ کر چسپاں کر دی جا تی ہیں کہ
،،NO201,UMER،،
جہاں پر نہ سمجھتے ہوئے بھی وہ لوگ غالب کو سنتے ہیں،کالی داس کو سنتے ہیں،میرا بائی،خسرو ایاز اور فیض کو سنتے ہیں۔ان کو سنتے ہی نہیں پر ان مہان قویوں کے الفاظوں کو شیما جی اپنے رقص میں جا ری رکھتی ہے جسے وہ خاص لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو تے ہیں جب اے سی والی بند ہالوں میں شیما جی امیر خسرو کے ان الفاظوں پر رقص کر تی دکھائی دیتی ہے جن الفاظوں میں میگھ ملہار کی باتیں ہو تی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بند اے سی والا ہال سارنگ کی بوندوں سے بھر گیا ہو!
جب شیما جی اسی ہال میں ایاز کے ان لفظوں کو چنتی ہے کہ
،،گائے گائے انقلاب گائے!،،
تو وہ لوگ جو خاص ہو تے ہیں ان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ٹائیوں کے نک کہیں انہیں پھانسی ہی نہ دے دیں!جب ان ہالوں میں شیما جی فیض کو پیش کرتی ہے تو سچ میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
،،ہم دیکھیں گے!،،
اور وہ خاص لوگ ایک دوسرے کے منہ کو تکتے رہ جا تے ہیں کہ کہیں انقلاب کے یہ الفاظ ان پر برچھیاں بن کر نہ برسیں!
بس ایسا نہیں کہ شیما جی کے پاؤں بس ان ہالوں تک ہی محدود رہ گئے ہوں
نہیں!
پر شیما جی نے تو لطیف کے ان لفظوں کا مان رکھا ہوا ہے کہ
،،جہاں پر کسی کے پیر وں کا کوئی نقش پا نہیں
وہاں پر بھی یہ جوگی اپنے حصے کی آگ جلا آتی ہے!،،
جب قلندر کی نگری پر دھماکے کے بعد می رقصم صدا بند ہو گئی تھی اور پو را سندھ سُکرات میں تھا
تو اس سُکوت کو شیما جی نہ ہی توڑا تھا۔خیر پور سے لیکر سکھر کے ساد بیلو تک تو آج تک پیر رقصاں ہیں وہ پیر شیما جی کے ہیں!
ریڈ کارپیٹ سے لیکر مندروں کی مورتیوں تک!
مزاروں کے غسل زدہ غلافوں سے لیکر ادبی بیٹھکوں تک
یہ پیر رقصاں رہے ہیں!
بس ادبی بیٹھکوں،سماجی بیٹھکوں تک ہی کیا
جب ملیر میں ملک ریاض کی بنائی ہوئی بھیڑیا نما آئی کون،،بحریہ ٹاؤن،،کے خلاف برسرِ پیکار فیض محمد گبول میدان میں تھے اور ملیر،کراچی سمیت پو رے سندھ کو سانپ سونگھ گیا تھا تو کون تھا جو فیض گبول کے پاس جاتا اور اسے کہتا کہ
،،دھرتی ماں کے لیے ڈٹے رہو
میں تمہا رے ساتھ ہوں!،،
وہ شیما جی تھی!
شیما جی ملیر آئیں فیض محمد گبول سے ملیں اور گبول اسٹاپ پر ایک شاندار پروگرام بھی کیا جس میں شیما جی نے مردہ دلوں کو فیض کے اس کلام سے جگایا کہ
،،ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
ہم دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا واعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم وستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اھلِ حکم کے سر اُوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گے
جب اھلِ خدا کے کعبے سے
ہم دیکھیں گے۔۔۔۔!،،
تو ملیر کے باسیوں کے سینے میں غیرت اور بوڑھے فیض محمد گبول کی آنکھوں میں آنسو رواں تھے!
شیما جی نے اپنے پیر بس ریڈ کارپیٹ پر ہی نہیں رقاصاں کیے!
پر شیما جی نے تو اپنے پیر وہاں پر بھی پیش کیے ہیں جہاں ببر کے کانٹے اور پتھر تھے
سچی باتیں کہتے!سچ کہتے!سچ کا ساتھ دیتے!،مظلوموں کے کی طرف داری کرتے
اور مظلوموں کے پاس کھڑے رہ کر آج شیما جی کی سیاہ زلفیں سفیدی میں بدل گئی ہیں
پر شیما جی نے اپنے آدرشوں سے سودا نہیں کیا!
شیما جی اپنی منزل سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں
شیما جی کا سفر ابھی تک تمام نہیں ہوا
وہ بس اسٹیجوں پر سجے منچوں پر نہیں
پر وہ وہاں بھی نظر آتی ہے جہاں ظلم کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے
بس ایسا نہیں کہ اس کے پیر بس رقص جا نتے ہیں
نہیں اس کے پیر تو سسئی کے پیر ہیں
جو سفر بھی جانتے ہیں
طویل سفر!
تھکا دینے والا سفر!
شیما جی مظلوموں کا ساتھ کسی بھی حال میں نہیں چھوڑتیں وہ ان کے ساتھ رہتی ہے
بس ایسا نہیں کہ شیما جے بس ادائیں جانتی ہیں
نہیں ہو صدائیں بھی جانتے ہے
اور وہ،وہ نعرے بھی جانتی ہے جس سے طاقت ور حلقے خوف کھا تے ہیں
شبنم اور شعولے کا سنگم ہیں شیما جی!
شیما جی کے پیر کئی سالوں سے رقص میں ہیں
ایسا رقص جس رقص کے لیے قلندر نے کہا تھا کہ
،،نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم!،،
ان پیروں نے بس رقص نہیں کیا
پر اب ہاتھ بھی مظلوموں کے لیے بلند ہو تے ہیں
بھلے کوئی منچ ہو،یا ریڈکارپیٹ
اب یہ ہاتھ بلند ہو تے ہیں
وہ ہاتھ جن ہاتھوں پر تتلیاں بیٹھا کرتی تھی
وہ ہاتھ کہہ رہے ہیں
”سیز فائر ناؤ!
سیز فائر ناؤ
سیز فائر ناؤ!!!!“
جہاں اوروں کے پیر جلتے ہیں
وہاں شیما جی کے ہاتھ بلند ہو تے ہیں
ایسے باوقار ہاتھ ہمیشہ بلند رہیں
ہمیشہ بلند رہیں!!!
آج ان عظیم پیروں کا جنم دن ہے جن پیروں نے طویل سفر کیے بے تحاشہ رقص کیے روتا ہو ہنسایا اور کمزروں کا ساتھ دیا
آئیں دعا کریں
ایسے باوقار پیر
کبھی نہ تکھیں
جو سسئی کے پیر ہیں
جو شبنم بھی ہیں
جو شعولہ بھی ہیں!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔