پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال، یورپی یونین کی تشویش

166

یورپی یونین نے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ذرائع ابلاغ پر قدغنوں کا تذکرہ کیا ہے، جسے پاکستان کے کئی حلقوں میں پذیرائی مل رہی ہے۔

یورپی یونین کی طرف سے چوتھی جی ایس پی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق، آزادی اظہار رائے اور سول سوسائٹی کے حوالے سے صورتحال ویسے ہی ہے جیسے کہ 2020 میں تھی۔ اس رپورٹ کو کئی حلقے مثبت قرار دے رہے ہیں جب کہ کچھ اس پر تشویش کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔

یورپی یورپین کمیشن اور یورپین ایکسٹرنل ایکشن سروس کی اس مشترکہ رپورٹ کو منگل کو جاری کیا گیا، جس میں اعتراف کیا گیا کہ خواتین، بچوں خواجہ سراؤں اور ماحولیات کے حوالے سے اقدامات میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ تاہم کئی دوسرے معاملات میں صورت حال امید افزا نہیں ہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کئی صحافیوں پہ متشدد حملے ہوئے اور انہیں غائب کیا گیا۔ ناقدین کے خلاف آن لائن ٹرولنگ بھی کی گئی، جس کی وجہ سے بہت سارے صحافیوں نے اپنے تحفظ کے لیے سیلف سینسرشپ کا انتخاب کیا۔ جبری طریقے انسانی حقوق کے کارکنان، سیاسی کارکنان اور منتخب نمائندوں کے خلاف بھی استعمال کیے گئے، جس سے ان کی آزادیاں محدود ہوئیں اور آزادیاں محدود کرنے کے لیے انتظامی، قانونی اور دوسرے طریقے استعمال کیے گئے۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق کے حوالے سے ایک مقامی برانچ قائم کرنے میں مدد کرے۔

واضح رہے کہ اکتوبر میں پاکستان کے جی ایس پی پلس کا درجہ چار سال کے لیے بڑھا دیا گیا تھا۔ اس اسٹیٹس کے پاس پاکستان بہت کم ڈیوٹی یا ڈیوٹی کے بغیر یورپین مارکیٹ میں اپنی مصنوعات بھیج سکتا ہے۔

پاکستان کو یہ اسٹیٹس کئی برسوں سے حاصل ہے اور ملک کو اس سے فائدہ بھی ہوا ہے جس کی وجہ سے تجارتی حجم، جو دوہزار تیرہ میں 8.3 ارب یورو تھا، بڑھ کر اب 14 ارب یورو سے زیادہ ہو چکا ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کئی ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ لیکن خیال یہ کیا جاتا ہے کہ ملک میں جب جبر کا ماحول بڑھتا جا رہا ہے اور بڑے پیمانے پر اقلیتوں، چھوٹی قوموں اور تنقیدی سوچ رکھنے والوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ایسے میں انسانی حقوق کے کئی کارکنان نے اس رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے۔

بلوچستان میں جبری گمشدگی کے خلاف آواز اٹھانے والی سمی دین بلوچ کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں اس رپورٹ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تذکرہ ایک مثبت پیشرفت ہے۔ انہوں نے جرمن نشریاتی ادارہ ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یورپی یونین نے ایسا کر کے ان لوگوں کے حوصلے بڑھائے ہیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یورپی یونین کے علاوہ دوسری بین الاقوامی تنظیمیں بھی اس حوالے سے صدائے احتجاج بلند کریں۔‘‘

سمی دین بلوچ کے مطابق بین الاقوامی اداروں کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو اگر کسی بھی طرح کی مالی معاونت دے رہے ہیں تو اس مالی معاونت کو انسانی حقوق کی بہتری سے مشروط کیا جائے۔ ” ملک میں ہزاروں لوگ گمشدہ ہیں اور جبری طور پہ گمشدگی کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اگر بین الاقوامی تنظیم موثر طور پر پاکستان پر دباؤ ڈالیں تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکا جا سکتا ہے۔‘‘

خیال کیا جاتا ہے کہ کئی بین الاقوامی ادارے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پہ تشویش کا اظہار کرتے ہیں لیکن پاکستان کے حاکم طبقات اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل ناصر منصور کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس رپورٹ کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یورپی یونین نے جی ایس پی پلس کا درجہ دینے کے لیے 27 نکات مقرر کیے ہیں، جس میں سے پاکستان کئی نقات پر پہلے ہی گرے ایریا میں جیسا کہ سزائے موت، مزدوروں کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق وغیرہ وغیرہ۔ اگر پاکستان نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو ملک کو معاشی طور پر بہت نقصان ہوگا۔‘‘

ناصر منصور کے مطابق پاکستان نے 14 ارب یورو سے زیادہ کی تجارت کی ہے اور اس تجارت پر لاکھوں مزدوروں کی نوکریوں کا انحصار ہے۔

انسانی حقوق کی کارکن طاہرہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی پر مناسب بین الاقوامی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے اندر انسانی حقوق کے کارکنان اور عدلیہ پاکستانی حکومت کو مجبور کرے کہ وہ جبری گشمدگی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کنونشنز کی منظوری دے۔‘‘

طاہرہ عبداللہ کے مطابق اگر ملکی دباؤ کام نہ کرے تو پھر بین الاقوامی مالی معاونت ایک لیوریج کے طور پر استعمال کیا جائے۔