اقوام متحدہ نے جمعہ کو کہا کہ شمالی میانمار میں نسلی مسلح گروہوں کے اتحاد کی طرف سے دو ہفتے قبل فوج کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے بعد لڑائی سے تقریباً 50,000 افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
چینی سرحد کے قریب شمالی شان ریاست میں دو ہفتوں سے لڑائی جاری ہے اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے فوجی جنتا کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
میانمار کے قائم مقام صدر مائنٹ سووے نے کہا ہے کہ اگر میانمار مسلح گروہوں کو ختم کرنے میں ناکام رہتا ہے تو ملک کے ٹوٹ جانے کا خطرہ ہے۔
مائنٹ سووے نے کہا، “اگر حکومت سرحدی علاقے میں ہونے والے واقعات پر موثر طریقے سے قابو نہیں پاتی ہے تو ملک کئی حصوں میں تقسیم ہو جائے گا۔”
انہوں نے زور دے کر کہا، “اس مسئلے پر احتیاط سے قابو پانے کی ضرورت ہے۔ چونکہ یہ ملک کے لیے ایک انتہائی اہم گھڑی ہے اس لیے تمام لوگوں کو ٹاٹماڈاو (فوج) کی حمایت کرنے کی ضرورت ہے۔”
انہوں نے ان خیالات کا اظہار نیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی کونسل کی میٹنگ میں کیا، جس میں فوجی جنتا کے سربراہ من آنگ ہیلنگ اور دیگر اعلیٰ حکام موجود تھے۔
مائنٹ سووے، آنگ سان سوچی کی جمہوری طورپر منتخب حکومت کے تحت نائب صدر تھے، جسے فوج نے 2021 میں معزول کردیا تھا۔ بعد میں میانمار کی فوجی جنتا نے سووے کو قائم مقام صدر مقرر کردیا۔
میانمار کی صورت حال کیا ہے؟
فوج مخالف میانمار نیشنل ڈیموکریٹک الائنس، تانگ نیشنل لبریشن آرمی اور اراکان آرمی کا کہنا ہے کہ انہوں نے درجنوں فوجی چوکیوں پر قبضہ کرلیا ہے اور چین جانے والے راستوں کو بند کردیا ہے۔
فوجی جنتا نے ایک اہم تجارتی مرکز ہاتھ سے نکل جانے کا اعتراف کیا ہے۔
میانمار میں ایک درجن سے زائد مسلح گروہ سرگرم ہیں۔ یہ فوجی جنتا کے خلاف ہیں اور نسلی اقلیتی گروہوں کے لیے خودمختاری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک دہائیوں سے فوج کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔
میانمار کی نسلی اقلیتیں ملک کی 54 ملین آبادی کا تقریباً ایک تہائی پر مشتمل ہیں۔
ابھی حال ہی میں کچھ مسلح گروپوں نے 2021 کی بغاوت اور اس کے بعد ہونے والی فوجی کارروائیوں کے بعد سے “پیپلز ڈیفنس فورسز” (پی ڈی ایف) کو تربیت دی اور اسلحہ سے لیس کیا ہے۔
اس ہفتے کے اوائل میں بیجنگ نے جھڑپوں کے نتیجے میں کئی چینی شہریوں کی ہلاکتوں کی تصدیق کی تھی۔
جمعرات کے روز چینی وزارت خارجہ نے میانمار میں چینی شہریوں کو شدید تنازعات والے علاقوں سے دور رہنے کا اور ملک کے شمالی علاقوں میں سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا۔
خیال رہے کہ چین میانمار کی فوجی حکومت کو ہتھیار فراہم کرنے والا بڑا ملک ہے۔