مزاحمت ۔ پری گل

321

مزاحمت

تحریر: پری گل

دی بلوچستان پوسٹ 

 

میرا نام فرزانہ مجید بلوچ ہے اور میں بلوچ اسٹوڈنٹ لیڈر ذاکر مجید بلوچ کی بہن ہوں۔ فرزانہ مجید کا اپنے تعارف کا یہ انداز اور حاکموں کے شہر میں انکی رعب دار آواز دربار یزید میں زینب بنت علی رض کے خطبے کی یاد دلا رہی تھی۔ 2014 تقریبا 4 ماہ کی مدت میں کوئٹہ سے اسلام آباد تک ‏2300 کلومیٹر طے کرکے فرزانہ اور اسکے ساتھی جب اسلام آباد پریس کلب کے سامنے پہنچے تو ان سے روایتی پاکستانی سوال ہوئے جنکا جواب دینے کی بجائے فرزانہ نے اپنے سوال رکھے جنکا جواب حاصل کرنے کے لیئے وہ ایک لمبا تکلیف دہ سفر طے کرکے آئی تھی لیکن آج تک اسے وہ جواب نہیں مل سکے۔ وہ ‏اپنے ساتھ ایک بزرگ کچھ نوجوان اور بچے لیکر کوئٹہ سے نکلی ۔ چار ماہ کا پیدل سفر ، زمین کے نشیب و فراز ، پیروں کے چھالے اور زخم نوجوان لڑکیوں مخصوص کے مسائل کے باوجود اس نے اپنا سفر جاری رکھا لیکن اسے منزل نہیں ملی۔ اسکی والدہ آج بھی اپنے بیٹے کی تصویر لئے پریس کلبوں اور پاکستانی ‏اداروں کے سامنے در پدر ہے۔ 

کئی سال مصلے پر گزار کر ذاکر مجید کی ماں نے ملک کے مروجہ قوانین کے تحت اپنے بیٹے کی تلاش شروع کردی لیکن انہیں کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ۔ لیکن پھر بھی یہ با ہمت ماں خاموش نہیں بیٹھی کبھی آنسو پونچھتے اور اور کبھی دعائیں مانگتے ذاکر ‏مجید کی ماں اللہ سے مایوس نہیں ہے یہی امید اسکی ہمت ہے۔ پاکستانی ریاست کے ہاتھوں اغوا یا لاپتہ کہلائے جانے والے لوگوں کے خاندان کی اذیت کا اندازہ لگانے کے لئے آپکا صرف انسان ہونا ضروری ہے اس پر کسی کو لمبے چوڑے بحث کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیئے لیکن کچھ تجربات صرف انہی خاندانوں ‏کے ہیں جنہیں کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ ہم درد کا اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن ان خاندانوں کو پہنچنے والے نفسیاتی نقصانات کسی کو دکھائی نہیں دیتے ۔ آج کے گہرےزخم بھر جائیں گے اگلی نسلیں ان سے واقف نہیں ہونگی لیکن ان کے نشان زخم کہ نوعیت کا پتا دیتی رہی گی اور یہ اذتیں معاف نہیں ‏کی جائیں گی۔ جب یہ نوجوان لڑکیاں جو پریس کلبوں کے سامنے مار کھاتی ہیں یہ اپنی ماوں کی طرح آنسو نہیں بہائیں گی انکا درد آنسوؤں کے بجائے انتقام کی صورت میں نکلے گا۔ ہاں ہم جانتے ہیں ان تکالیف نے کئی لوگوں کو توڑ دیا وہ اب پہلے کی طرح نہیں بول سکتیں لیکن کئی اور موجود ہیں ظلم کم ‏ہوا ہے جو مزاحمت کم ہوگی؟ ظلم کے سامنے کھڑی ماوں، بہنوں، بیویوں اور بچوں کا انداز ضرور بدلے گا آخر کب تک وہ اس ڈراونے خواب کی کیفیت میں رہیں گے؟ آخر کب تک وہ گونگوں بہروں کے سامنے فریاد کرتے رہیں گے؟ کب تک وہ یہ سمجھتے رہیں گے کہ پاکستان کا نام لینے پر کوئی بھی اٹھا لیا جائے ‏تو انہی یہی بے رحم ریاست انصاف دے گی جس کے پاس نہ جنگی اخلاقیات ہیں نا قانون و سیاست؟ آخر کب تک گریہ زاری و نوحہ ہوگا؟ کب تک پوسٹر کو پلے کارڈ اٹھائے پریس کلبوں کے چکر کاٹے جائیں گے؟ کب تک آنکھوں پہ پٹی باندھی برطانوی بوسیدہ نظام انصاف اور قانون کے منتظر رہیں گے؟

‏کب تک ⁦‪#Save‬⁩…. ⁦‪#Relaese‬⁩…. ⁦‪#Stop‬⁩…. کے ہیش ٹیگ چلتے رہیں گے؟ کب تک بلوچ اپنی سر زمین پر دعوی کی سزا کاٹتے رہیں گے؟ اور اس پر غیر انسانی سلوک کا سامنا کرتے رہیں گے؟ پریس کلب کے سامنے بیٹھنے کی اپنی باری کے انتظار کا یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہیں چلے گا ظلم کی ایک اچھی خاصیت یہ ہے ‏کہ اسکی معیاد زیادہ نہیں ہوتی۔ لوگوں کو ان حالات سے نمٹنا آجائے گا وہ اپنا مستقبل محفوظ کرنے کے لئے نئے راستے ضرور تلاش کریں گے۔ فرزانہ مجید اب زخمی پیر لئے اسلاآباد کے صحافیوں کے بے حس سوالات سننے نہیں آئے گی۔ سمی و مہلب کی طرح بچپن سے ظلم سہنے والی نسل ذاکر مجید اور راشد ‏کی ماوں کی نسل سے مختلف ہوگی۔ یہ اپنے بچوں کی تربیت ایسے انداز میں کرے گی کہ وہ پاکستان کے زیر قبضہ رہتے ہوئے سیاسی حل کے سراب سے متاثر نہیں ہوگی۔ تجربات نے بلوچوں کے طریقہ سیاست پہ جو اثر ڈالا ہے اسکے نتائج جلد نظر آئیں گے اور مزاحمت رنگ لائے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔