محبت کی رلی،رُل گئی ہے
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
وہ گھر میں بیٹھے ٹوپا ٹوپا،تند تند،رلی سیتی تھی،اب وہ ان ہی آنکھوں سے لہو لہو روتی ہے
وہ اس رلی میں بس دھاگے سے تند تند نہیں جوڑ رہی تھی،وہ اس رلی میں اپنے پیارے کے لیے خواب سی رہی تھی
خواب ہی کیا،وہ رلی سپنوں،سہروں اور خوشیوں سے سی گئی تھی۔اس رلی میں اک ماں نے بس خوشی نہیں سی تھی پراس ماں نے اس رلی میں اپنے شہزادے بیٹے کا مستقبل سی لیا تھا۔وہ ماں دیکھ سکتی تھی کہ اس کا لال اس رکی میں محبت کیسے بانٹ رہا ہے۔اس رلی میں ماں نے اپنی دید سے یہ بھی دیکھ رکھا تھا کہ کیسے اس کی بہو اس رلی کو محبت کو سمیٹ رہی ہے۔ماں نے یہ بھی دیکھ رکھا تھا کہ اس رلی میں اس کا پوتادادی سے چھپ رہا ہے،ایسے جیسے بادلوں میں چاند چھپ جائے۔ماں نے اس رلی میں بس اپنے بیٹے کے لیے بلوچی سہرے نہیں ٹوپے تھے۔پر اس ماں نے اس رلی میں اپنے بیٹے کے لیے حسین چہرہ بھی دھاگوں پیں پیوست کر کے ٹوپ دیا تھا جو چہرہ سراسر محبت تھا جس چہرے کو دیکھ کر اس کا بیٹا خوش ہوتا تھا۔ماں نے اس رلی میں تمام خوشیاں ایسے باند ھ لیں تھیں،جیسے کوئی عاشق میلے میں جائے اور لوٹتے سمے اپنے رومال میں میلے کی مٹھائی باندھ لے۔ماں نے اس رلی میں اپنی بہو کا نام سی رکھا تھا۔ماں نے اس رلی میں اپنے ان پوتوں کا نام رنگین دھاگوں سے سی رکھا تھا،وہ تمام راستے جو محبت کی گلی سے ہوکر دل تک جاتے ہیں وہ بھی اس رلی میں سیے ہوئے تھی۔وہ ہاتھ۔وہ تتلیاں۔وہ مسکراہٹیں،وہ باتیں،بدن کی خوشبو،محبت کا پسینہ،شرم وحیا،گیلے بال،سرخ گال،لال ہونٹ،اس رلی میں سیئے ہوئے تھے۔اک ماں کی طرف سے اک بیٹے کے لیے محبت کی رلی تھی۔
اس رلی میں دیس کی خوشبو تھی۔مٹی کی مہک تھی۔وہ رلی دیس کی بارشوں سے بھیگی ہوئی تھی۔اس رلی میں بارشوں کے بعد رنگ کھلتے تھے۔اس رلی میں محبت کی ہوائیں تھی۔اس رلی میں اس گاؤں کی خوشبو سمائی ہوئی تھی جس گاؤں میں اک ماں،اک محبوبہ اور عشق بستے تھے۔
اس رلی کا اک اک ٹوپا ماں نے محبت سے سیا تھا،ایسے جیسے عاشق اپنی محبوبہ کے گال پر محبت کا بوسہ پیوست کرے،دھیرے دھیرے دھیرے آہستہ آہستہ آہستہ!
میں اس بات کو کیسے بیان کروں کہ وہ ماں اس رلی کو کس پیار سے چھوتی ہوگی؟
مشکل!بہت مشکل ہے؟
پر آپ میرے ساتھ آنکھ بند کر کے اس منظر کو سمجھ سکتے ہیں کہ
جیسے کوئی عاشق رات کے آخری پہروں میں محبوبہ کی چولی سُرکائے
وہ ماں اس رلی کو کیسے چومتی ہوگی؟
جیسے عاشق محبوبہ کے پسینے سے شرابور بد ن کو لرزتے ہاتھوں سے چومیں!
اس رلی میں ماں نے اپنے بیٹے کے لیے بس خواب،سپنے نہیں سیئے
ماں نے اپنے ہاتھوں سے اس رلی میں اپنے بیٹے کے لیے چاند سیا تھا
ستارے تو آپ ہی آپ ٹوٹ کر ماں کی گود میں گرتے تھے جن ستاروں کو ماں اس رلی میں ٹوپتی جا تی تھی پر ماں نے اپنے لال کے لیے اپنے ہاتھوں سے اس رلی میں چاند سیا تھا۔وہ چاند روشن تھا،پر اب وہ چاند کملا گیا ہے،گرہن زدہ ہو گیا ہے،اور ستارے تمام کے تمام ٹوٹ کر بکھر چکے ہیں۔
کیوں کہ اس گلی میں اس ماں کا اب گزر ہی نہیں جس گلی میں اس ماں کا گھر تھا جس گھر میں سپنے بھی ماں کے دامن سے ایسے لپٹے ہوتے تھے جیسے بچے ماؤں کے دامنوں سے لپٹے ہو تے ہیں۔
اب اس گھر میں ماں کا گزر نہیں۔
وہ ماں جو پہاڑوں کے دامنوں میں رہ کر اپنے محبوب بیٹے کے لیے محبت سے رلی سیتی تھی اور وہ تمام گیت خوشبو بن کر اس کے ارد گرد اُڑنے لگتے تھے جو گیت مائیں اس وقت لبوں پر لا تی ہیں یا تو وہ اپنے بیٹوں کے لیے رلیاں سیتی ہیں یا ان کے لیے دلہنیں لاتی ہیں۔اس رلی کو گھر میں دھول کھا گئی۔اور محبت کے تمام گیت ماتمی گیتوں میں بدل گئے ہیں۔
وہ آنکھیں جو اپنی دید میں اپنے بیٹے کی تصویر لیے او ر اپنی بہوں کی شبی لیے رلی ٹاپتی تھیں وہ آنکھیں لہو لہو ہیں۔ان آنکھوں کی محبت تو رلی میں دھاگوں کے ساتھ پیوست ہوگئی۔تمام نور تو خوشبو بن کر اس رلی کے حوالے ہو گیا،اب جو دید تھی وہ شال کی گلیوں میں لہو لہو ہے۔
وہ ماں جو پہاڑوں کا دامن چھو ڑ کر کبھی چھوٹے شہروں تک بھی نہیں گئی، وہ ماں آج بڑے بڑے شہروں میں اپنے دل افروز کو تلاش کر رہی ہے۔
ہم جانتے ہیں بڑے شہروں میں گمشدہ بچے اتنی آسانی سے نہیں ملتے
پر وہ بچے جو تما م چھوٹے شہروں سے لاپتہ کیے جائیں وہ کیسے ملیں گے؟
جن بچوں کے دامن ان دھاگوں سے بھی نہیں سئے ہوئے جو بلوچ دیس کی معصوم ماؤں نے محبت سے سیے تھے۔ان بچوں کے کاندھوں پر وہ رلی بھی نہیں جو پہاڑوں کے دامنوں میں رہ کر ماؤں نے محبت سے سی ہے۔جن رلیوں میں محبت بھی ہے۔خوشبو بھی ہے۔عشق بھی ہے۔دیس کے رنگ بھی ہیں گھر کی گلیاں بھی ہیں،آسما ں کے ٹوٹے تارے بھی ہیں۔محبوبہ کا لمس بھی ہے۔معصوم بچوں کی کلکاریاں بھی ہیں،تمام خوبصورت نام بھی ہیں،واعدے بھی ہیں۔دیس کی بارشیں بھی ہیں۔بارشوں کے بعد کے رنگ بھی ہیں۔محبت کی راتیں بھی ہیں۔عشق کے دن بھی ہیں،سہرے بھی ہیں۔گیت بھی ہیں۔سپنے بھی ہیں،خواب بھی ہیں۔،روشن چاند بھی ہے!
ماں کی آنکھیں بھی ہیں
پر اب وہ آنکھیں لہو لہو ہیں
”تیری محبت ہملاک کی ماند
پی گئی ہوں میں،مر گئی ہوں میں“
پر بات تو یہاں تک بھی ختم نہیں ہو تی
اس نے محبت کا ہیملاک پیا اور مر ہی گئی،پر بات تو اس سے کہیں آگے کی ہے،کہیں آگے کی!!!
گھر تو گھر
گھر کا آنگن،تو آنگن
گاؤں تو گاؤں
گاؤں کی گلیاں تو،گلیاں
پہاڑ،تو پہاڑ
پہاڑوں کا دامن،تو دامن
شال،شال کی گلیاں تو گلیاں
شہرتو شہراقتدار کے ایوانوں تک
کون سی ایسی جگہ ہے جہاں یہ ماں دکھ کا کشکول لیے نہیں پہنچی
اس ماں نے تو ان پتھروں کو بھی درد کی دانھن دی ہے جو پتھر اس ماں کے پیروں سے لپٹ تو سکتے ہیں،پیروں میں آکر نرم تو ہو سکتے ہیں پر اس ماں کے ساتھ درد بھرا سفر نہیں کرسکتے،جن پتھروں کو ماں نے کہاں تھا ”کیا میرا پنہوں جیسا بیٹا تم نے دیکھا ہے؟!“
اب یہ ماں اس دیس کی،میری،آپ کی اور پتھروں کی خاموشی دیکھ کر دردوں بھرا دل لیے اپنے آپ سے کہہ رہی ہے کہ
” ڏُونگَر ڏُکِ پَئِي، مون توسين ڳالهہ ڪئي،
پاڻان آنءُ مُئِي، سُورُ سڻائي پرينءَ جو “
”پتھرو!مجھے بہت دکھ ہے،کہ میں نے اپنا درد تم سے بیاں کیا
میں خود ہی مر گئی،تمہیں اپنے پنہوں کا دکھ سنا کر“
نا تمام!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔