شہید شہزاد دہوار بلوچ کون تھا؟
تحریر: بُزرگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
زندگی کے معلومات:
شہزادجان بلوچستان کے سب خوبصورت اور بلوچ قوم کے تاریخی شہر قلات میں حاجی خدابخش دہواربلوچ کے گھر 8/05/1999 کو پیدا ہوئے۔ آپ کا بچپن قلات میں گزرا۔ چھ سال کی عمر میں انکے شفیق والد نے آپ کو قلات پبلک سکول میں داخل کیا۔ قلات پبلک سکول میں میٹرک کرنے کے بعد آپ نے مزید تعلیم کے سلسلے میں شال (کوئٹہ) کا رُخ کیا۔ شال میں آکر انٹرمیڈیٹ کا داخلہ لیا، انٹر کے دوسالہ دورانیہ مکمل کرنے کے بعد آپ نے سریاب روڈ پہ واقع گورنمنٹ پولی ٹینیکل کالج سے DAE CIVIAL انجینئر کا تین سالہ ڈپلومہ حاصل کیا۔ جہاں آپ نے بلوچ طلبا تنظیم (بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی) کے پلیٹ فارم سے اپنے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ یہاں سے ان کو ایک مکمل بلوچ قوم دوستی کا نظریہ اور فکر ملا. اس نظریہ پر وہ زندگی بھر عمل پیرا رہے ۔ جس کا ثبوت انھوں نے اپنے زندگی کے آخری ایام تک ثابت قدمی سے دیا۔ البتہ وہ تین سالہ ڈگری مکمل کرنے کے بعد اپنے بھائی کے ساتھ نال میں NHA کے کسی پروجیکٹ میں تین ماہ تک انجینئر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ اس کام سے انکو کوئی دلچسپی نہیں تھا۔ وہ وہاں سے سیدھا شال آیا ۔
شہزاد جان ہمیشہ اپنے گھر والوں سے کہا کرتا کہ میں سرکاری نوکری نہیں کروں گا مجھ سے نہیں ہوگا۔ میں سوشل ورک کی حیثیت سے اپنے مظلوم قوم کی خدمت کروں گا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے شال آکر میل نرسنگ میں داخلہ لیا اور ساتھ ہی ٹرینگ بھی شروع کیا۔ جس سے وہ بہت خوش تھا کہ اسکی زندگی کی ایک خواہش پورا ہوگیا ہے۔ اسی دوران انکے بڑے بھائی نے شہزاد کے کاغذات IRRIGATION کے کسی پوسٹ پہ جمع کیے اور شہزادجان کو ٹیسٹ دینے پہ مجبور کیا۔ نہ چاہتے ہوئے اس نے ٹیسٹ دیا ۔شومئی قسمت جب رزلٹ لسٹ لگ گیا تو آپ میرٹ پر پاس ہوئے لیکن اس سے پہلے وقت کے ظالم ہاتھوں نے شہزاد کی زندگی کا خاتمہ کردیا۔
اندازِ زندگی:
مارچ 2016 کی خوبصورت شام کی بات ہے جب شہزادجان سے میرا پہلا ملاقات ہوا۔ جب وہ اپنے بالوں کو کنگھی کرتے ہوئے اپنے کمرے سے نکل کر ہمارے دروازے کو دستک دیا اور مجھ سے کسی چیز کا پوچھا اتفاق سے ہم چائے پی رہے تھے۔ میں نے انکو اندر آنے کے لیے کہا اور چائے کا کپ انکے سامنے رکھا اور کہا سنگت چائے پیو ! مسکراتا ہوا شہزُل بولا نہیں نوشے جان! میں نے اصرار کیا اور چائے انکے سامنے رکھ دیا۔ وہ چائے کے ہلکی چُسکی لیتے ہوا بولا بُزرگ چائے پینے کو تو میرا من بھی کررہا تھا شکر ہے تم نے پہلے سے بنا رکھا ہے۔ اس سیاہ چائے کے کپ سے میرے اور شہزُل کی دوستی شروع ھوگئی وہ طالب علمی کا زمانہ تھا ہم ہاسٹل میں رہائش پذیرتھے۔ صبح شام ایک دوسرے سے دعا سلام ہوتا رہتا ۔ بس یہ ہلکا سا علیک سلیک ایک حقیقتی دوستی کی شکل اختیار کرگیا پھر ایک دور ایسا بھی آیا کہ جب بھی وہ قلات سے شال کی طرف آتا۔ تو میرے پاس لازمی چکر لگاتا ہم حال حوال کرتے اور شال کی حسین وادی میں گھومنے نکل جاتے، شہید شہزادجان دوستوں کا دوست تھا۔ وہ ایک فکری زندگی پہ عمل پیرا تھا۔ اس نے اپنا ہر عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مکمل عزم کیا ہوا تھا۔ وہ ایک نظریاتی و سیاسی زندگی پر عمل پیرا تھا۔ وہ ہر چیز کی کمی برداشت کرسکتا مگر نظریہ و فکر پہ کسی قسم کی مفاہمت کو نہ صرف اپنی توہین کہتا بلکہ بلوچ قوم کے لیے نقصان دہ سمجھتا۔ اس لیے میں نے شہزاد کو ہمیشہ عمل کرتا ہوا انسان پایا، وہ کبھی بھی کسی دوست سے بدکلامی، بدزبانی، گالم گلوچ کبھی بھی نہیں کرتا۔ وہ اپنے کام میں ہمیشہ لگا رہتا۔ مقصد سے عظیم کسی کو کبھی عزیز نہیں رکھتا۔ وہ مادروطن کی عشق میں اس قدر مگن تھا کہ دنیا کا دوسرا کوئی حُسن اس کے دل میں جگہ نہ بنا سکا۔ وہ مسلسل شہیدؤں کے خاندانوں کا ذکر کرتا رہتا اور ہردم ان کے لیے پریشان رہتا کہ نہ جانے فلاں شہید کے فیملی کی کیا حالت ہوں گے۔ پتہ نہیں اس شہید کے بچے کیا کررہے ہیں کس حال میں ہیں انکے تعلیم کا کیا بندوبست ہے ۔ بس انہی سوچوں میں گم کبھی ایک فیملی سے ملاقات کی کوشش کرتا اور انکی کمک کرتا تو کبھی دوسرے فیملی سے ۔ شہزاد ایک مقصد کی زندگی گزارہا تھا اور وہ مقصد صرف بلوچ قوم کی بقا اور حقیقی منزل تھا۔ جس مقصد و منزل کیلئے شہزاد اپنے زندگی قربان کرنے کیلئے تیار رہتا ، آخرکار شہزاد سُرخرو رہا اور اپنے زندگی کو اُس عظیم مقصد پہ قربان کرنے میں کامیاب ہوا۔ جس کی خواہش شہزاد ہمیشہ کرتا اور کہتا کہ یہ زندگی اللہ نے ایک مقصد کیلئے دی ہے۔ ایک بلوچ کیلئے اسکے مادروطن، مظلوم قوم سے بڑھ کر کوئی مقصد نہیں ہے۔
شہادت:
شہزادجان ایک علم دوست انسان تھا۔ اُس کو بلوچ طلبا سے بے پناہ محبت تھی۔ ہروقت طلبا کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں رہتا۔ پولی ٹیکنیکل کالج کے ہاسٹل میں قیام پذیر تھا وہاں رہنے والے طالبعلم آج بھی شہزادجان کی دل سے قدر کرتے ہیں۔ وہ ایک فٹ بالر تھا جس کےلئے اُس نے اپنے خود کا ٹیم ہاسٹل میں تشکیل دیا۔ یہ 4 جون 2022 کا دن تھا جب شہزادجان شام کے وقت ٹیم کے ساتھ گیم سے فارغ ہوا۔ دو اور دوستوں کو ساتھ لیے موٹرسائیکل پہ سوار ہوکر موسئ کالونی کی جانب جارہے تھے کہ سریاب روڈ پہ موسئ کالونی کے ایریا میں تین سرکاری گاڑیوں نے انکا گھیرا کیا۔ سادہ لباس میں ملبوس وہ لوگ شہزادجان اور انکے دوستوں کو زبردستی گاڑیوں میں بٹھا کر لےگئے۔ کون لوگ ہیں؟ کہاں لے گئے؟ کیوں لے گئے؟ کسی کو کچھ علم نہیں آس پاس کے تمام لوگ شہزاد کو جانتے تھے۔ مگر کسی میں یہ ہمت نہیں ہوا کہ اُن بدمعاشوں سے یہ پوچھے کہ بھائی ان طلباکا کیا قصور ہے۔ جو تم اس طرح انہیں گھسیٹ کر لے جارہے ہو؟ اگلے روز جب شہزاد کے بھائی نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی نمبر بند جارہا تھا۔ بھائی نے انکے دوستوں سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ شہزاد کو انکے دوستوں کے ساتھ سرکار نے جبراََ لاپتہ کیا۔
فیملی والے قلات سے شال آئے ۔ اور ماما قدیر کے پندرہ سالہ لگے بلوچ لاپتہ افراد کے کیمپ میں اپنا مسلہ بیان کیا VBM نے پریس کانفرنس کر کے احتجاج کی کال دی۔ جس میں شال کے تمام باشعور لوگوں نے شرکت کیا۔ چند روز بعد ایک دوسری احتجاجی کال دی گئی مگر کچھ نہ ہوا۔ یہ ریاست بلوچ کے پُرامن احتجاج کو ایک مزاق سمجھتا ہے لفظ امن کا اس بے شعور جانوروں پہ کوئی اثر نہیں ہوتا۔ گھر والوں کی جانب سے FIR درج کرانے کی لاکھ کوشش کیا گیا ۔ مگر یہ خوف زدہ ریاست کبھی بھی کسی لاپتہ افراد کے FIR سے اس قدر خوف کا شکار ہے کہ اپنے ہی بنائے عدالت کا بھی سامنا نہیں کرسکتا۔ تمام کوششیں بے سود ہوئے جب 19 جولائی 2022 کو شہزادجان کو انکے قریبی دوست ڈاکٹر مختیاربلوچ اور دیگر سات(7) لاپتہ افراد کو زیارت بلوچستان میں ایک جعلی مقابلہ میں شہید کیا گیا۔ ان تمام افراد کے لاشوں کو سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا گیا۔
جس سے پورا بلوچ قوم ایک سوگ میں پڑگیا۔ سب کو اپنے اپنے لاپتہ پیاروں کے فکر لیے شناخت کیلئے کئی کئ خاندان شال آئے ۔
شہزادجان کی جسدِ خاکی کو انکے بھائی نے اپنے ہاتھوں لیا ۔اور قلات کیلئے روانہ ہوا جب گھر والوں کو یہ اطلاع ملی تو شہزاد کی لُمہ نے آہ! تک نہیں کیا۔ بلکہ ایک تاریخی جملہ کہا کہ ” شہزاد تو میرا بیٹا تھا ہی نہیں ، میں نے تو صرف اُسکو پالا تھا وہ اس گُلزمیں کا بیٹا تھا اور اسی پہ قُربان ہوا“ سُرخ سلام لُمہ جان کو!
شال سے آخری بار الواع!
شہزادجان شال سے بے پناہ محبت کرتا وہ کبھی بھی شال کو الوداع نہیں کہتا جب بھی شال سے نکلتا تو وہ یہ جملہ ضرور اپنے اسٹیس پہ کہتا کہ ” رخصت اَف آوارُن شال“ یعنی وہ کبھی بھی شال کو خداحافظ نہیں کہتا۔ لیکن آج شہزاد اور شال کے جدائی کا دن تھا۔آج شہزُل ہمیشہ کیلئے الوداع کررہا تھا۔آج شہزل نے شال سے کیے سارے وعدوں کو وفا کیا آج شہزُل اپنے مادروطن کے گود میں ابدی نیند سونے جارہا تھا۔
قلات شہر میں جب شہزاد کے شہادت کی خبر پھیلی تو پورا شہر قلات کے مین شارع( آر سی ڈی ) پہ جمع ہوا روڈ بلاگ ہوگیا سب کے دل خون کے آنسوں رو رہے تھے۔مگر زبان سے شہزاد کی بہادری اور دلیری کے نعرے بلند تھے ۔
قلات نے اپنے اس فرزند کا استقبال بھی اسی طرح کیا جس طرح وہ آج سے صدیوں پہلے اپنے پہ قُربان ہونے والوں کا کرتا رہا ہے۔ اسی (آر سی ڈی ) پہ فرنگی کے ہاتھوں شہید ہونے والے خان مہراب خان کا جو اسقبال ہوا جس طرح بابو نوروز اور شہدا بلوچ سات (7) شہیدوں کا اسقبال ہوا،اور ورنا شہید آغا نوروزخاں استقبال ہوا۔ بالکل اسی طرح آج پُھلین شہید شہزاد دہوار کا بھی وہی استقبال ہوا۔ وہی جزبہ وہی چوش وہی آزادی کے نعرے وہی پرعزم حوصلہ وہی اندازِ استقبال ہزاروں لوگوں کے یہ جلوس شہزادجان کو بارات کی شکل میں نعروں کی گونج میں مڈوے سے لیکر انکے گھر تک لے گیا اور پھر اس ہزارؤں کی اجتماع نے ایک جزبہ کی انداز میں شہزادجان کو مادروطن کے سُپرد کرگیا۔
آج شہزاد اپنے مقصد میں کامیاب ہوا آج شہزاد کو بلوچ قوم نے اپنا فرزند مان لیا۔ آج شہزاد کو ان تمام بلوچ ماؤں نے اپنے گود لیا جنکے فرزندوں اس گُلزمین کے بقاءَ کی خاطر لال گنوائے۔آج اُن تمام ماؤں کی کا عقیدہ شہزاد سے جُڑ گیا ۔ آج وہ بے بس مائیں اپنی زندگی کی فہرست میں ایک اور شہید بیٹے کا اضافہ کرچُکی ہیں آج پھر بہنوں کے سر فخر سے بلند ہوگئیں کہ ہماری آنچل کی عزمت کو ایک بھائی نے اپنے خوں رنگ دیا۔ آج ایک اور بھائی نے سب کے بھائی ہونے کا ثبوت دیا۔۔ آج شہزاد نے بلوچ ہونے کا ثبوت دیا۔
لُمہ جان شہزاد سے بے پناہ محبت کرتی تھی وہ شہزاد کی جدائی برداشت نہ کر سکی چند ماہ بعد وہ بھی اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئ ۔لُمہ نے اپنے دیگر سات بیٹوں کو چھوڑ کر شہزاد کو گود لیا۔ اللہ سے دعا کہ وہ پیارے دوست کو اور لُمہ جان کو جنت الفروس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔