وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ نے حوران بلوچ اور لاپتہ بلوچ طالب علم رہنماء ذاکر مجید کی والدہ کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم احتجاجی کیمپ میں پریس کانفرس کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسی سے اپیل کی کہ بالاچ بلوچ سمیت فیک انکاونٹرز میں لاپتہ بلوچوں کے قتل کا سوموٹو لیں اور ان واقعات کا عدالتی تحقیقات کراکے انصاف کے تقاضے پورے کرے اور لاپتہ بلوچوں کی فیک انکاونٹرز میں قتل کو روکنے، ان میں ملوث کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور لاپتہ افراد کی باحفاظت بازیابی کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرے ۔
نصراللہ بلوچ نے کہا کہ بالاچ بلوچ سمیت دیگر تین افراد کو سی ٹی ڈی نے آبسر تربت میں مارنے کا دعوی کیا تھا وہ پہلے سے لاپتہ تھے جن کے کیسز وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ساتھ درج ہے۔ بالاچ بلوچ کو 28 اگست کو آبسر تربت سے انکے گھر سے فورسز نے غیر قانونی گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا تھا اور انہیں فیک انکاونٹرر میں قتل کرنے سے دو دن پہلے منظر عام پرلاکر بوگس مقدمات میں انکی گرفتاری ظاہر کی گئی اور بالاچ ساتھ فیک انکاونٹر مارے جانے والے دیگر تین افراد بھی پہلے سے لاپتہ تھے جن میں شکور بلوچ کو 25 جون کو آبسر تربت انکے گھروں سے اور سیف اللہ آبسر تربت سے انکے دکان سے فورسز نے حراست میں لینےکے بعد جبری لاپتہ کردیئے تھے ۔
نصراللہ بلوچ نے کہا کہ سنہ 2021 میں سی ٹی ڈی نے لاپتہ بلوچوں کو فیک انکاونٹرز میں قتل کرنے کے سلسلے کو شروع کیا جو تاحال جاری ہے اب تک سی ٹی ڈی نے بلوچستان میں 21 فیک انکاونٹرز میں دو سو سے زائد لاپتہ بلوچوں کو قتل کیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان فیک اکاونٹرز کا کا حکومتی اور نہ ہی عدلیہ کے سطح پر نوٹس لیا گیا ہے ۔
نصراللہ بلوچ نے تربت میں فیک انکاونٹرز میں لاپتہ بلوچوں کے خلاف احتجاجی دھرنے پر بیٹھے دھرنے کے شرکاء کی مطالبات کی حمایت کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ انکے مطالبات پر فوری طور پر عملی اقدامات اٹھائیں۔