سیاسی کلچر اور کماحقہ تناسخ – برزکوہی

984

سیاسی کلچر اور کماحقہ تناسخ

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

انقلابی سیاسی کلچر؛ انقلابی جنوں، انقلابی فکر، اور سیاسی تغیرات کی فضا کی تشکیل ہے۔ یہ ایک معاشرتی جوائندگی کی ایک خصوصی روایت یا ماحول کو ظاہر کرتا ہے، جو سیاسی انقلاب کے دوران پیدا ہوتا ہے اور عوام کو انقلاب کے ساتھ منسلک کرتا ہے۔

انقلابی سیاسی کلچر میں عوام کی شرکت کو اہمیت دی جاتی ہے۔ عوام کو انقلابی فعالیت میں شامل کیا جاتا ہے اور ان کی آواز کو سنا جاتا ہے۔ اور انقلاب کی تشویش کو دلائل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں احتجاجات، انقلابی شعار، اور تغیر کی تشویش کو ظاہر کرنے والی علامات شامل ہوتے ہیں۔ عوام اور انقلابیوں کے درمیان تحریکی اور جذباتی تعلقات پر زور دیا جاتا ہے۔ جہاں جدیدیت کی قدر کی جاتی ہے۔ نئے اور متفرق انقلابی فکر اور عملی منصوبے پیدا کیئے جاتے ہیں تاکہ معاشرے میں تغیرات لائی جاسکیں۔

انقلابی سیاسی کلچر سماجی تبدیلی کو تشجیع دیتا ہے اور موجودہ سماجی نظام کی ترتیبی معاشرت کو متاثر کرتا ہے۔ جہاں نئے ریاستی بنیادیں پیدا کی جاتی ہیں، جو معاشرتی ترتیب کو تبدیل کرتی ہیں۔ یہ عوام کو تغیر کے جذبے کی فضا فراہم کرنے والی سیاسی ماحول کو ظاہر کرتا ہے، جہاں تغیر کی مطالبت کی جاتی ہے اور سماجی اور سیاسی تبدیلی کو ممکن بنایا جاتا ہے۔

امریکی مصنف جیمز کلیر اپنے مشہور و معروف کتاب “اٹامک ہیبٹس” میں لکھتے ہیں کہ ” اگر آپ مسلسل محنت اور کوشش کے باوجود بھی اپنی متعین ہدف اور مقصد حاصل نہیں کرسکتے، تو اس کی بنیادی وجہ وہ برا سسٹم اور برے سسٹم میں، ان برے لوگوں کی صحبت ہوتی ہے، جس میں آپ رہ کر کوشش اور محنت کرتے ہو۔ آپ اپنا ہدف اور مقصد تب تک حاصل نہیں کرسکتے، جب تک آپ برے سسٹم سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرلیتے اور برے لوگوں کے صحبت سے دور نہیں ہوتے۔” وہ مزید لکھتے ہیں کہ “انسان کی عادات، دراصل انسانی اصل پہچان ہوتے ہیں، اگر آپ لوگوں کے درمیان اپنے آپ کو کامیاب اور اچھا دیکھنا چاہتے ہو، تو سب سے پہلے اپنی بری عادات کو چھوڑنا ہوگا۔”

میرے نزدیک مقدر اور قسمت کچھ بھی نہیں، اگر ہے بھی تو وہ مواقع ہوتے ہیں، اور انسان کو دنیا میں ہر وقت مواقع ملتے رہتے ہیں۔ یہ اس انسان کے اوپر انحصار کرتا ہے کہ وہ ان مواقع سے کس طرح مستفید ہوسکتا ہے۔ فائدہ اٹھانے کی اہلیت کو ہم خوش قسمتی اور موقع زوالی کو ہم بدقسمتی کہتے ہیں۔ دراصل موقع سے فائدہ اٹھانا انسان کی صلاحیتوں پر منحصر ہوتی ہے۔ بہترین مواقع سے بہترین فائدہ اٹھانے والے وہ لوگ ہوتے ہیں، جن میں خوبصورتی کا جذبہ ہوتا ہے۔ خطرہ مول لینے کی ہمت، سچ بولنے کی طاقت، قوت فیصلے کی جرت، قربانی دینے کی صلاحیت اور اپنی ہی تشکیل کردہ کنفرٹ زون کو توڑ کر معمول کی زندگی کی قید سے نکل کر ایک غیر معمولی زندگی کو اپنانے کی قوت ہوتی ہے۔

رچرڈ ڈیڈکائیڈ کیا خوب فرماتے ہیں کہ “اس وقت تک آپ کے لیے کامیابی ممکن ہوسکتی ہے، جب تک آپ اپنے بستر سے پیار کرنا اور اپنے کمرے کی چھت کو گھورنا بند نہیں کرتے۔ اسی حوالے ممتاز صحافی اوریانا فلاشی لکھتی ہیں کہ “ایک شخص دوسروں سے زیادہ محض اس لیئے ممتاز ہوسکتا ہے، جب اس نے بہت زیادہ تکالیف اور مشکلات کا سامنا کیا ہوا ہوتا ہے۔”

کامیابی، بہادری، رسک، ایمانداری، مخلصی، محنت، جدوجہد، قربانی، شعوروعلم، سچائی، حقیقت پسندی اور دانشمندی وغیرہ ان تمام متذکرہ چیزوں کو اگر ہم اپنے نقطہ نظر یا زاویہ نظر سے لیکر یا پھر اپنے سوچ و اپروچ کے مساوی یا اس سے کم درجہ اور سطح کے سوچ کے لوگوں کے نقطہ نظر اور آراء سے پرکھیں، جانچیں اور حتمی و کامل سمجھیں، تو اس وقت تک ہم صد فیصد غلط فہمی کے شکار ہونگے۔ کامیابی کی حقیقی و علمی تشریح و تعریف کامیاب انسانوں کے موزانے سے نہیں بلکہ کامیاب نتائج سے ہوتا ہے۔

ماضی بعید کے بحث سے قطع نظر کہ کیا موجودہ قومی آزادی کی جنگ کی بنیادی اینٹیں واقعی ایک قومی آزادی کی مکمل و مستقل اور تسلسل کے ساتھ جاری و ساری جنگ اور انقلابی کلچر کے معیار کے مطابق رکھے جاچکے ہیں؟ علمی و سائنسی بنیادوں پر قومی تحریکات اور قومی جنگوں کی تشکیل اور آغاز کے ساتھ ایک باقاعدہ تھیوری اور کلچر متعارف کرایا جاتا ہے، جو مکمل تحریکی اور جنگی ہوتی ہے، تو کیا وہ متعارف ہو چکی ہے؟ اور آج نظریہ و فکر، جذبہ، قربانی، سب اپنی جگہ کیا جو روایت، جو کلچر اور جو رجحانات موجودہ تحریک اور جنگ میں پائے جاتے ہیں، کیا وہ واقعی علمی و سائنسی بنیادوں پر تحقیق و تخلیق ہوکر متعارف ہوچکے ہیں؟ آج اوپر سے لیکر نیچے تک ہر ایک جہدکار اپنے کندھوں پر جو تحریک اٹھا کر آگے بڑھ رہا ہے، کیا وہ سنڈیمن زدہ قبائلیت اور پاکستانی زدہ سیاست سے جنم شدہ جراثیم و اثرات اور کلچر سے پاک ہے؟ کیا سنڈیمنی قبائلی اور پاکستان زدہ سیاست کے اثرات اور اس سے جنم لینے والی کلچر اور روایات تحریکی و انقلابی اور جنگی تقاضات اور مزاج سے مماثلت رکھتے ہیں؟

قومی آزادی اور انقلابی تحریکوں کی روز اول سے اپنی مستند و منفرد اصول تقاضات اور کلچر ہوتے ہیں۔ آج بلوچ قومی تحریک آزادی میں موجود غیر نظریاتی و غیر فکری، سطحی و ثانوی اور مخلتلف رویوں اور مزاج کی آمیزش سے جنم لینے والی تضادات اور اختلافات کی اگر باریک بینی و علمی اور سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کیا جائے، تو یہ قطعی سچ ہے کہ سنڈیمن زدہ قبائلیت اور پاکستانی زدہ سیاست کے اثرات و کلچر اور قومی تحریک کے تقاضات اور تحریکی کلچر کے ٹکراو اور عدم مماثلت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ رواجوں میں جدت اور تبدیلی کی کوشش ہمیشہ اختلاف اور تضادات کو جنم دیتی ہیں۔ جس طرح میکاولی اپنی کتاب دی پرنس میں لکھتے ہیں کہ “جدتوں کو رواج دینا بہت ہی نازک امر ہے، اس راہ میں خطروں کی گنتی نہیں ہوتی اور اس میں کامیابی بہت ہی غیر یقینی ہوتی ہے، وہ سب لوگ مخالف اور دشمن بن جاتے ہیں جو پرانے نظام کے ماتحت خوشحال تھے۔ رہے وہ جنہیں نئے نظام سے فائدہ پہنچتا ہے، وہ بھی اس کی مدافعت میں پوری سرگرمی نہیں دکھاتے۔ اس سرد مہری کا سبب کچھ تو مخالفین کا خوف ہوتا ہے اور دوسری بات یہ لوگ اکثر نئی چیزوں پر اس وقت تک اعتقاد نہیں لایا کرتے، جب تک انہیں کچھ دنوں پرکھ نہ لیں۔ پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب کبھی نئے نظام کے مخالفوں کو موقع ملتا ہے، وہ پوری قوت کے ساتھ حملہ کرتے ہیں، پھر بھی دوسرے لوگ مدافعت میں لاپرواہی سے کام لیتے ہیں اور اس طرح اپنے ساتھ بادشاہ کو بھی لے ڈوبتے ہیں۔”

میکاولی مزید لکھتے ہیں کہ “اصل بات یہ ہے کہ انسان اکثر انہیں راستوں پر گامزن ہوتا ہے، جنہیں پہلے سے دوسرے اختیار کرچکے ہوتے ہیں اور جب وہ کوئی بڑا کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے، تو اس کے پیش نظر کوئی نمونہ نہیں ہوتا ہے۔ مگر عقلمند آدمی کا شیوہ یہی ہونا چاہیئے کہ اپنے سامنے ایسی بڑی بڑی شخصیتوں کو بطور نمونہ رکھے جنہیں کسی بڑے کام میں غیر معمولی کامیابی نصیب ہوئی ہو، اس غرض سے کہ اگر ان جیسا کمال نہ بھی حاصل ہو تب بھی اس کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوگا۔”

تحریکوں اور جنگوں میں آسمانی لوگ نہیں ہوتے، عام لوگ ہوتے ہیں، اگر قربانی کا جذبہ، نظریہ و فکر، مخلصی اور بہادری حتیٰ کہ وطن دوستی، عام لوگوں سے ہٹ کر تحریکی و انقلابی یو مگر چیزوں کو پرکھنے، سمجھنے اور نقطہ نظر، عادات و اطوار عام لوگوں کی ہو تو تحریکی و انقلابی اور جنگی لوازمات ہرگز پورے نہیں ہونگے کیونکہ قربانی، وطن دوستی اور مخلصی کے علاوہ تحریک و جنگ کے اپنے مستند اور طے شدہ لوازمات ہوتے ہیں اور وہ صد در صد اپنانا لازمی ہوتے ہیں۔

جس طرح جنرل ڈیگال کہتے ہیں کہ “جنگ کے بعد کے دنوں میں جب یورپ میں مادہ پرستی تیزی سے پھیلنا شروع ہوا تو مجھے یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ باقی لوگوں کے ساتھ ساتھ فرانسیسی بھی اپنے معیار زندگی اور روزمرہ کے معاملات کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے لگے تھے۔”

اس وقت تک اپنی جنگ و تحریک اور جدوجہد سے مکمل انصاف نہیں ہوسکتا اور جنگی و تحریکی تقاضات اور لوازمات پورا نہیں ہونگے، جب تک معمولات زندگی حسب روایت محو سفر ہوں اور اہمیت و اولین ترجیح ذاتی و خاندانی زندگی کی بہتری ہو۔ پھر تحریک سے صرف وابستگی اور پارٹ ٹائم جہدکاری اور اپنی ذات اور خاندان کے ساتھ پورا پورا انصاف اور تحریک و جنگ کے ساتھ نا انصافی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

کامریڈ لینن ایسے مقام پر فرماتے ہیں کہ “جنگ فائدے کی وہ فیکٹری ہے، جو کچھ کو آباد اور کچھ کو برباد کرتی ہے۔” انفرادی و خاندانی حوالے سے وہ آباد ہوتے ہیں جو تحریک سے بڑھ کر اپنی ذات اور خاندان کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔ پھر آنے والی نسلوں اور تاریخ کی نظروں سے کردار کے حوالے سے زوال اور برباد ہوتے ہیں، انفرادی و خاندانی حوالے سے وہ برباد ہوتے ہیں جو اپنی ذات و خاندان سے بڑھکر تحریک کے ساتھ انصاف کرتے ہیں، لیکن پھر آنے والی نسلوں اور تاریخ کی نظروں میں کردار کے حوالے سے تا ابد اوج ثریا پر ہوتے ہیں۔

تحریکوں میں ہمیشہ متضاد و پرتصادم اشیاء سے لیکر سطحی اور لغو قسم کے تاویلوں تک ہر جہدکار کو ہمیشہ سائنسی و علمی اور فلسفیانہ انداز میں سوچنا و جستجو کرنے کی ساتھ ساتھ تشکیک پسندی کو ذہن میں رکھنا ہوگا، جو پھر کبھی بھی کسی بھی جہدکار کو کنفیوژن کا شکار نہیں ہونے دیگا۔ ان عادات کا آہستہ آہستہ اختیار کرنا، پھر تمام غیر انقلابی عادات و اطوار کو تبدیل کرکے تحریکی اور انقلابی عادات میں تبدیل کردیتا ہے۔

ایک دفعہ سینٹر پیٹرو نینی نے کہا تھا “بہت حد تک ہمیشہ میں اپنے اندر شکوک کا انبار رکھتا ہوں، شکوک کی موجودگی کے بغیر ہم واقعات اور چیزوں کی قطعی جانچ کھودیتے ہیں۔ یقین کا خبط قسمت پرستی تک لے جاتا ہے، پریقین ہونے کا خبط آپ کو دوسروں کی رائے سننے نہیں دیتا، جبکہ میں ہمیشہ دوسروں کی رائے سننے کے لیئے خود کو تیار رکھتا ہوں اور ان میں مثبت پہلووں کو نظر میں رکھتا ہوں۔”

یہ ایک انقلابی اور تحریکی عادت ہے، جس کے پانے اور اختیار کرنے کے لیئے اولین شرط اپنی پرانی عادات کو تبدیل کرنا ہے، جو بوسیدہ سماج سے، جو اس فرسودہ نظام سے، جو پاکستان زدہ سیاست سے اور جو غیر تحریکی و غیر تنظیمی اور غیر انقلابی کلچر سے ہمیں ملے ہیں۔ عادات کی تبدیلی مشکل، مگر ناممکن نہیں ہے۔ جہاں مرضی ہوتی ہے، وہاں کچھ بھی مہلک نہیں ہوتا، کچھ بھی ناگزیر نہیں ہوتا اور کچھ بھی ایسا نہیں ہوتا جسے بدلا نہ جاسکے۔ میں نے شروع میں کہا تھا کہ میں انسان پر یقین رکھتا ہوں، انسان اپنی قسمت کا خود تخلیق کار ہے۔

ماضی کی تخت پر بیٹھ کر سوچ اور شعور و علم کی بلندیوں اور تبدیلی سے راہ فراریت اختیار کرنا، ذہنی جمود کی پرورش اور تخلیقی صلاحیتوں اور کام کرنے کی ہمت کو مفلوج اور ناکارہ بنادیتی ہے۔ رچرڈ نکسن اپنے معروف کتاب لیڈرز میں لکھتے ہیں “کچھ لوگ حال میں زندہ ہوتے ہیں، ماضی سے بے بہرہ اور مستقل سے بے نیاز ہوتے ہیں، اور کچھ ماضی میں پناہ لیتے ہیں لیکن بہت کم میں یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ماضی کی مدد سے حال کی تعمیر یوں کرتے ہیں کہ مستقبل کے راستے نظر آنے لگیں۔”

اگر ہم مسلسل اور مستقل بنیادوں پر سائنسی و علمی دائرہ کار میں رہ کر سب سے پہلے یہ جان لیں کہ جن رواجوں اور کلچروں کو ہمیں سونپ دیا گیا ہے یا جو ہم خود شعوری یا لاشعوری بنیادوں پر اپنے دماغ پر سوار کرکے لیجارہے ہیں، کیا وہ تحریکی اور انقلابی ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو ہمیں قومی جنگ کو شدت اور جدت دیکر ان سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا کیونکہ جنگ صرف نجات کا راستہ نہیں ہوتا بلکہ جنگ قوم کی ترقی اور تشکیل کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر ہر پرانے فرسودہ اور مسلط کردہ روایات اور کلچر کو بھی ختم کرتی ہے۔ اگر ہم حقیقی تحریکی اور جنگی کلچر اور روایات نہ سمجھ سکیں اور سنڈیمنی قبائلی و پاکستان زدہ سیاست اور رجعتی خیالات و رجحانات اور کلچر کے ساتھ جنگ میں حصہ دار ہوکر آگے بڑھے رہیں، تو ہم جنگ لڑتے رہینگے لیکن کامیابی اور قومی طاقت حاصل کرنے میں بہت دیر لگے گا۔ پھر میسولینی کی وہ بات یاد آتی ہے کہ :ہم نے میدان جنگ میں فتح حاصل کی تھی لیکن مدبرانہ جنگ میں ہم قطعی طور پر ناکام رہے۔”

انقلابی سیاسی کلچر کو متروک کرنے کے نقصانات گہرے اور کثیر جہتی ہوتے ہیں۔ ان میں اطمینان کا خطرہ، عوام میں مایوسی، اور جمہوری اصولوں کے ممکنہ کٹاؤ شامل ہوتے ہیں۔ انقلابی سیاسی کلچر کی اقدار کو برقرار رکھنا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرہ ترقی کرتی رہے، جبر کے خلاف چوکس رہا جائے، اور ایک آزاد، زیادہ منصفانہ اور مساوی مستقبل کے لیے جہد جاری ہو۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ انقلابات کو جنم دینے والے نظریات کی پرورش اور حفاظت کی جانی چاہیے تاکہ سب کے لیے ایک بہتر کل محفوظ ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔