بلوچ وائس فار جسٹس نے طالب علم رہنما ذاکر مجید کی طویل جبری گمشدگی پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی خاموشی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی کے باعث بلوچستان میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے اور تمام عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بلوچ عوام کی نسل کشی کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے دیگر حصوں میں، ایک معمولی واقعہ بھی عالمی طاقتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کی جانب سے فوری مداخلت اور ردعمل کا باعث بنتا ہے۔ تاہم، بلوچ عوام کو کئی دہائیوں سے جبر، ریاستی جارحیت، نسل کشی اور نسلی تطہیر کا سامنا ہے، ہزاروں بلوچوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ تربت، پنجگور اور ڈیرہ بگٹی جیسے مقامات پر اجتماعی قبروں کی دریافت کے باوجود، دنیا نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اپنی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے بڑی حد تک آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی طاقتوں کی اس بے حسی کی وجہ سے چھوٹے قومیں نوآبادیاتی اور سامراجی طاقتوں کے زیر تسلط ہے اور نوآبادیاتی قوتیں ان کے وسائل پر قبضہ کرنے اور ان کی ثقافت، زبان اور شناخت کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔
بیان میں کیا گیا ہے کہ زاہد بلوچ، ذاکر مجید اور شبیر بلوچ جیسے بلوچ طالب علم رہنما کئی سالوں سے لاپتہ ہیں۔ ذاکر مجید بلوچ کی بازیابی اور انصاف کی تلاش کے لئے ذاکر مجید کے اہل خانہ نے 8 نومبر کو کوئٹہ میں احتجاجی ریلی کا اعلان کیا ہے، کوئٹہ میں موجود تمام مکاتب فکر کے لوگوں سے اپیل کرتے ہے کہ وہ ریلی میں شامل ہوکر ذاکر مجید کی والدہ کی آواز بنیں۔