جمود اسکواڈ اور بے بس سیاسی کارکن ۔ سلیم جالب بلوچ

188

جمود اسکواڈ اور بے بس سیاسی کارکن 

تحریر: سلیم جالب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ چند مہینوں کے دوران بلوچستان کی سیاست میں ایک طرف تو حق و باطل کی لڑائی کے نام پر وڈھ میں ایک جنگ زدہ ماحول نے جنم لیا ہے جبکہ دوسری طرف بلوچستان کے سیاسی جماعتوں کی غیر نظریاتی پن و موقع پرستی سامنے بھی سامنے آئی ہے جسکے تحت ہر ایسے مسئلے کو قبائلی یا دو فریقین کا مسئلہ قرار دے کر خود کو بری الذمہ قرار دے کر حالات میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے پر اکتفا کیا گیا۔ چند لوگ ثالثی کے نام پر میڈیا پر آئے جبکہ اس ایشو میں جہاں بی این پی کے قائد سردار اختر جان مینگل ایک طرف مشترکہ انتخابی حلقہ و دیگر مسائل کے ساتھ براہ راست نشانہ بن گئے۔ بلوچ دشمن قوتوں کا ردعمل فطری و وہاں کے علاقائی حالات کے مطابق ضرورت تھی لیکن وڈھ سمیت بلوچستان بھر میں یہ مسائل نہ آج کے ہیں نہ ہی گذشتہ چند مہینوں سے پیدا ہوئے ہیں۔ اسکا نشانہ سردار اختر جان مینگل کے طرح ہر بلوچ مکمل طور پر متاثر رہا، ہر گھر میں سماج مخالفین کی مظالم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ان مسائل پر جسطرح بی این پی چند مہینوں کے دوران عملی طور پر میدان میں آئی شاید اسکی بنیادی وجہ سردار اختر جان مینگل کا آبائی علاقہ و انکا براہ راست اس سے متاثر ہونا ہے۔ بطور پارٹی قیادت کے ساتھ کھڑا ہونا وقت کی ضرورت ہے بلکہ جتنا زیادہ پارٹی کی لیڈر شپ مضبوط ہوگی اسی طرح پارٹی مضبوط ہوگی۔

بلوچستان میں ہر گھر نہ صرف وڈھ بلکہ اس سے متاثرہ ہر فرد سردار اختر جان مینگل کی طرح نہیں ہے جسکے لئے ہزاروں قبائلی افراد جرگوں میں آئیں یا مسلسل روڈ بلاک و احتجاج یا لانگ مارچ کا انعقاد کریں۔ اس سے عام بلوچ کو صرف ایک ایسی جماعت ہی نکال سکتی یے جو منظم، متحد، اور عوامی رائے سے بھرپور ہو۔ یقینی طور پر سردار عطاءاللہ خان مینگل کا قائم کردہ جماعت یا سردار اختر جان مینگل کے موقف و عوامی پزیرائی کے باعث بی این پی اس امید کی سیاسی جماعت کا شکل اختیار کرسکتی ہے جو آگے چل کر ایک عام بلوچ کے لئے بھی ایسے لانگ مارچ و متحد ہوسکتی ہے جسطرح وڈھ اور سردار اختر جان مینگل کے لئے متحد ہوئی۔ ایک سیاسی کارکن کے لئے اپنے ادارے سے باہر تنظیمی معاملات پر رائے زنی کرنا اتنا ہی دکھ و درد کا باعث ہوتا ہے جتنا کوئی دوسری سیاسی جماعت کا شخص تنقید کرے۔ بہرحال جسطرح ایک سیاسی جماعت کے ضروریات اسکے کام کرنے کے طریقے و جماعت پر سیاسی سرکلوں میں ہونے والے سوالات ہیں اور اگر اس پر کبھی عام کارکن کو سنا یا موقع نہیں دیا جائے یا عام کارکن پالیسی یا تنظیمی فیصلوں سے بے خبر محض لبیک کہنے و احتجاج میں شامل ہونے تک کی حیثیت میں رہ جائے تو اسکے لئے اس کڑوے زہر کی پیالی پینی پڑتی ہے تاکہ کینسر زدہ چیزوں کو زہر سے مار کر باقی جسم کو مرضوں سے بچایا جاسکے۔

ایک وقت تھا جب سینٹرل کمیٹی کے فیصلوں سے لیکر عام سطح پر ہونے والے عوامل ہر عام کارکن کو علم و کارکن اسکا دفاع کرتا تھا لیکن اب یہ کیفیت بن چکی ہے کہ مرکزی کمیٹی و مرکزی کابینہ کے ممبران محض ایک میٹنگ سے اگلے میٹنگ تک یا سردار اختر جان مینگل کے ساتھ ائیر پورٹ یا کسی ناشتے کے ٹیبل پر ہی کارکن کو دکھائی دیتے ہے۔ عام کارکن کے لئے سوال و جواب دور کی بات مرکزی قیادت سے سلام دعا کی رجحان تک ختم ہو گئی ہے۔ شہید حبیب جالب بلوچ کے بعد شاید تنظیمی رپورٹ یا کونسل سیشن میں تنظیم کی کارکردگی کا کوئی طریقہ کار سامنے آئی ہے۔ حالیہ کونسل سیشن میں سیکرٹری رپورٹ تک نہیں بن سکی تھی۔ محض دوستوں کو کابینہ میں شامل کرنے کے لئے سیکرٹریز کی تعداد تو بڑھائی گئی لیکن پارٹی کا ترجمان و رسالے کی چھپائی یا لکھنے کے حوالے سے کوئی چیز شائع ہوئی تو صرف سردار اختر جان کو دکھائی گئی ہو لیکن عام کارکن کو نہ کسی نے لکھنے کی دعوت دی ہے نہ بولنے کی نہ ہی پڑھنے کی۔

کسی سینٹرل کمیٹی یا فیصلوں پر ورکرز کے رائے کو لینے کے لئے آج تک کوئی مرکزی دورہ کسی بھی ضلع کے نوٹس سے نہیں گزرا نہ ہی ورکرز کا ان پٹ آج تک مرکزی کمیٹی اجلاس کے لئے لیا گیا۔ ہر مرکزی کمیٹی کے بعد صرف پرانے طرز کے بیان نظروں سے گزرتی ہے۔ اضلاع میں سرکلر پر بحث ہوتی ہے اور نہ ہی عام ورکر کو سرکلر نظر آتا ہے۔ انسانی حقوق، ماہی گیر، لیبر و کسان، پروفیشنل، خواتین آئندہ شائد چند اور نئے سیکرٹریز بن جائیں لیکن وہ بھی صرف اختر جان مینگل کے ساتھ ناشتے یا ائیرپورٹ پر فوٹو سیشن کے لئے ہو۔ شاید اسکی بنیادی وجہ کسی بھی سیکرٹری یا مرکزی کمیٹی کے ممبر کا براہ راست پولنگ سے منتخب نہ ہونا ہے جبکہ کونسل سیشن کے انعقاد کا مقصد صرف الیکشن کمیشن کی لوازمات کو پورا کرنے کےلئے خانہ پوری کی مقصد کے علاوہ کچھ نہ ہو۔ جب ایسے سوالات کئے جاتے ہیں تو یہی ناشتہ گروپ جن کی وجہ سے پارٹی بحران کا شکار ہے، اختر جان مینگل کے گرد جمع ہوکر اسی کو آوٹ کرنے کا بہانہ اور جواز تلاش کرتے ہیں۔

پارٹی اداروں میں ورکرز کو نہ سننے یا بولنے پر قدغن ورکرز کا ان پٹ نہ لینے کی وجہ سے پارٹی احتجاجی مظاہروں میں تقاریر کے علاوہ چند ناموں کے علاوہ کوئی بندہ پیدا نہ کرسکا۔ بلوچستان اتنا بانجھ تو نہیں کہ سالانہ ہزاروں کے تعداد میں طلباء تعلیمی اداروں سے فارغ ہوکر دربدر گھوم رہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پارٹی کے تنظیمی اداروں میں چند خاموش ناموں کے علاوہ اکثریت سالوں سے بس کرنے کا نام نہیں لے رہے کہ کسی اور کو پارٹی میں جگہ دیا جائے۔ محض پارٹی ادارے مکمل طور پر مفلوج نہیں ہوئے تو کیا ہوا آج تک اس طرف کوئی توجہ دینے کی زحمت کسی نے نہیں کی ۔ان حالات میں سوالوں کو سننے کے بجائے عام کارکن کو ہی دیوار سے لگانے کا روش اختیار کرگیا جبکہ کسی دوست کو بزور پروپیگنڈہ قیادت سے دور کیا جاتا ہے تاکہ ناشتے و کھانے کے ٹیبل پر کسی دوسرے شخص کو جگہ نہ مل سکے۔

سردار اختر جان مینگل اگر موجودہ دور میں جہاں سوشل میڈیا کا سیاسی موقف کو عام کرنے میں بنیادی کردار ہے ہے۔ تقاریر کی جگہ سوشل ٹرینڈز لے چکی ہیں۔بلوچستان کے اکثر نوجوان نعروں سے نکل کر عمل، علم و تعلیمی اداروں سے فارغ ہورہے ہیں کیا اسی طرح پارٹی کو مکمل طور پر پرانی طریقوں سے چلاکر ایک دوسرے کو دیوار سے لگانے کسی کو نہ سننے کے زریعے سے چلا سکتے ہیں یا جدید ضروریات کے بنیاد پر پارٹی کی اسٹرکچر، تنظیم ڈسپلن کو ہم آہنگ کرنے کے اقدامات اٹھا کر باقائدہ قومی جماعت کی راہ ہموار کرتے ہیں جس میں عام کارکن اور نوجوان قومی کاز کیلئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں دقت محسوس نہ کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔