بلوچ قومی لیڈر ڈاکٹر اللّٰہ نزر بلوچ کے خلاف نوآبادیاتی پروپگنڈے (حصہ پنجم) ۔ گورگین بلوچ

433

بلوچ قومی لیڈر ڈاکٹر اللّٰہ نزر بلوچ کے خلاف نوآبادیاتی پروپگنڈے (حصہ پنجم) 

تحریر: گورگین بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

2 جنوری 2015 میں مشکے سنیڑی میں ایک گھر پر بمباری و شیلنگ ہوئی، جس کے نتیجہ میں مرحوم محمود خان کی دو بیٹیوں سمیت پانچ فرزندانِ بلوچ شہید ہوئے تھے۔ جو مندرجہ ذیل ناموں سے جاننے جاتے ہیں:ثمینہ بلوچ، عبدالستار، سبزل خان، داد محمد،امان اللہ، پیر بخش جو تیرہ سالہ کا تھا، اور شیرین جن کی عمر دس سال تھا شہید ہوئے تھے۔

اسی سال مشکے میہی میں بھی بمباری ہوا جہاں مشکے ریجنل کمانڈر سنگت سلیمان سمیت بہت دوست و سنگت شہید ہوئے تھے۔ جن میں شامل ڈاکٹر اللّٰہ نزر بلوچ کا بھائی سفر خان بھی شامل تھا جو کہ قومی لیڈر ڈاکٹر اللّٰہ نزر بلوچ کا مددگار تھا، انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو پڑھا لکھا انسان و راجی رھشون بناکر خود اپنے بھائیوں کے ساتھ پہاڑوں کو اپنے پاسدارانِ انقلاب سمجھ چکے تھے۔

بلوچ قومی لیڈر اکٹر اللّٰہ نزر بلوچ کے کئی لوگ اسی رستے پر چلے ہیں اور جن میں سے کئی جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر وہی بلند و بالا پہاڑ شیر رہے ہیں، مارچ دوہزار اٹھارہ میں انٹریو یئر کو جواب دیتے ہیں” میرے بیوی بچوں کو پاکستان نے گرفتار کیا تھا تاکہ مجھ پر اور میرے خاندان پر ذہنی دباؤ ڈالا جائے، لیکن یہ بات واضح ہونا چاہیے کہ مجھے کبھی بھی ایسے بیہودہ حرکتوں سے توڑا نہیں جاسکے گا، اب تک میرے خاندان کے 47 سے زیادہ افراد کو پاکستان آرمی شہید کر چکا ہے اور 60 سے زیادہ گھروں کو بمباری کرکے اڑا چکا ہے لیکن نا میں نے اور نا میرے خاندان میں سے کسی نے پاکستان کے سامنے ہتھیار ڈالے، ہم پاکستانی قبضے کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور اس کے خلاف مظبوطی سے کھڑے ہیں۔”

میں بذات خود ایک آزادی پسند سیاسی کارکن بہت ایسے پروپگنڈے دیکھ چکا ہوں کہ پاکستانی فوج نے پھیلا دیا ہے۔ جب تیس جنوری دوہزار سولہ کو مستونگ کلی دتو میں نڈر انقلابی لیڈر ڈاکٹر منان جان سمیت باقی چار ساتھیوں کو شہید کیا تھا تو پاکستانی فوج نے مشکے میں بس یہی پروپگنڈے چلا رہا تھا۔ پاکستانی آرمی ہر کوہ و دشت اور پہاڑ کے دامن میں واقع بلوچ آزادی پسندوں کو مار رہا ہے۔

دوہزار تیرہ سے دوہزار انیس تک پاکستانی فوج ہر طرح کی پروپگنڈ کرتا رہا لیکن انہیں ناکامی کا سامنا اس لیئے ہوا کہ پاکستانی آرمی تشدد کا زبان استعمال کر رہا تھا، تشدد بلوچ کو پسند نہیں، بلوچ عوام کو اس تشدد سے نفرت ہے کہ جو بلوچ قوم کی حقوق چین رہا ہو، بلوچ سرزمین پر قبضہ جما رہا ہو۔ اس تشدد سے نفرت ہے جو بچوں اور بچیوں کو اٹھا رہا ہو۔

جب علی حیدر آزادی پسندوں کے خلاف پاکستانی فوج کے ساتھ مل چکا تھا تو اس دوران جیبری میں ایک الگ جگہ آرمی کے قبضہ میں آگیا کہ جہاں کچی اینٹوں سے مکانات کھڑے کر دیئے اور اس جگہ کا نام “ماڈل ٹاؤن جیبری” کردیا وہاں اپنے ڈیت اسکواڈ والوں کو رہنے کی جگہیں دے دیا۔ اس حوالے سے چینلز اور میڈیا والے یہی پروپگنڈے چلا رہے تھے کہ مشکے کے عوام پاکستانی آرمی کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن عام بلوچ افراد کو پتہ تھا کہ پاکستانی آرمی اس خون خوار جانوروں کی طرح ہے جنہیں بھوک کی حالت میں اپنے والدین کو کھانا پسند ہوتا ہے۔

جاری


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔