بلوچ قومی جہد، چیلنجز و امکانات – لطیف بلوچ

392

بلوچ قومی جہد، چیلنجز و امکانات

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کئی دہائیوں سے بلوچ قوم ، سیاسی تنازعات، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ، وسائل کے استحصال اور نوآبادیاتی قبضہ گیروں کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے ، سیاسی و سماجی حقوق، قومی آزادی اور بنیادی انسانی آزادی کے لئے جدوجہد کو جبر، بربریت اور تشدد سے روکنے کی بھر پور کوششیں کئی دہائیوں سے جاری ہے، بلوچ قوم کی حالیہ صدی سے جاری جہد کی تاریخ ظلم و جبر، سامراجی و نوآبادیاتی استحصال، قومی غلامی، وسائل کی لوٹ مار، جبری گمشدگی ، مسخ شدہ لاشیں، اجتماعی قبروں سے لکھی جارہی ہے کیونکہ بلوچ نوآبادیاتی جبر اور بیرونی استحصال کے پس منظر میں اپنی قومی ازادی کے لئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

بلوچ قوم کی حالت زار کا پتہ 27 مارچ 1948 سے لگایا جا سکتا ہے جب ان کے وطن کو زبردستی پاکستان کے ساتھ الحاق کیا گیا تھا۔ اس منحوس دن کے بعد سے، بلوچوں نے انتہائی جبر کا سامنا کیا ہے، کیونکہ ان کی زمین اور وسائل اسلام آباد اور بیجنگ دونوں کے استحصال کا شکار ہیں۔ یہ تاریخی تناظر بلوچ عوام کی جاری جدوجہد کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ جو لوگ اور قوتیں یہ کہتے ہیں کہ بلوچ کا مسئلہ صوبائی خودمختاری، نوکری اور پیکجز سے حل ہوگا وہ تاریخ اور بلوچ قومی تحریک کے پس منظر سے نابلد و مکمل ناواقف ہے، بلوچ کا مسئلہ غلامی اور قومی محکومی ہے اور حل صرف قومی آزادی ہے۔

بلوچ قوم کے مرکزی مطالبات میں سے ایک ان کے قومی آزادی اور اقتدار اعلیٰ کی بحالی ہے۔ وہ اپنے معاملات پر خود مختاری اور اپنی تقدیر کے تعین میں اسلام آباد اور بیجنگ کی مداخلت نہیں چاہتے۔ بلوچ قوم کی جداگانہ تاریخی حیثیت اور قومی آزادی کو بزور طاقت سلب کرنے سے بلوچ قوم میں احساس غلامی نے جنم لیا ہے اور وہ اس غلامی سے نجات کے لئے سراپا مزاحمت ہے۔

گذشتہ سات دہائیوں سے بلوچوں کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور دیگر ریاستی چیلنجر کا سامنا ہے، جن میں جبری گمشدگی، ماورائے عدالت قتل ، جعلی مقابلے، سماجی و سیاسی آزادیوں اور اظہار رائے کی آزادی پر قدغن شامل ہیں۔ بلوچ کارکنوں، دانشوروں اور نوجوانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جس سے خوف و جبر کا ماحول پروان چڑھا ہوا ہے۔ بین الاقوامی برادری کو ان خلاف ورزیوں کا نوٹس لینا چاہیے بلوچ قومی تحریک کی سیاسی و اخلاقی حمایت کے ساتھ ریاستی مظالم کو روکنے کے لئے کردار ادا کرنا چاہیے۔

بلوچستان معدنی اور انسانی وسائل دونوں سے مالا مال ہے، لیکن ان وسائل کو منظم طریقے سے لوٹا جارہا ہے، سوئی گیس، ریکوڈک، سیندک، سی پیک، چمالنگ، دُودر، سمیت دیگر استحصالی منصوبوں کے ذریعے قومی دولت کو بے دردی سے لوٹا جارہا ہے اور جبری گمشدگی و قتل عام کے ذریعے بلوچ انسانی وسائل ڈاکٹرز، اساتذہ، پروفیسرز، وکلاء، دانشور، ادیب، شاعر، طالب علم اور سیاسی و سماجی کارکنوں کو چھینا جارہا ہے جس سے انسانی بحران جنم لے چکا ہے، انسانی و معدنی وسائل کے لوٹ مار کی حصول میں بیجنگ اور اسلام آباد کے گٹھ جوڑ نے بلوچ قوم کی بے چینی اور عدم تحفظ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ بلوچ قوم کی مرضی و منشاء کے بغیر معاہدات اور وسائل کے استحصال نے خطے میں معاشی وسیاسی تفاوت کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

بلوچ قوم کی اپنے سیاسی، سماجی حقوق، قومی آزادی اور انسانی حقوق کے لئے جدوجہد ابھی بھی سیاسی و مزاحمتی محاذوں پر جارہی ہے۔ عالمی برادری کے لئے ضروری ہے کہ بلوچ قوم کی حالت زار کا نوٹس لے اور انصاف اور قومی ازادی کے لئے ان کی تاریخی قومی جدوجہد کی سیاسی، اخلاقی و سفارتی حمایت کرے۔ عالمی طاقتوں کی سفارتی کوششیں اور بلوچ نمائندوں کے ساتھ بات چیت اس دیرینہ تنازعہ کے پرامن حل کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔

سیاسی حقوق، قومی و انسانی حقوق اور قومی آزادی کی طرف بلوچ عوام کا سفر بے پناہ چیلنجز کا شکار رہا ہے۔ جبر اور استحصال کے سامنے ان کی طویل قومی مزاحمت نے خطے میں امن و سلامتی کے لئے راہ کھول دی ہے، آزاد و خود مختار بلوچستان خطے میں امن، سلامتی اور استحکام کی کنجی ثابت ہوسکتی ہے۔ عالمی برادری پر لازم ہے کہ وہ بلوچوں کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہوں اور ان کی دیرینہ جدوجہد کو تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے چارٹر اور شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق بلوچ قوم کو آزادی سے جینے کا حق دی جائے کیونکہ ڈی کالونائزیشن کی خواہش تمام انسانوں کا بنیادی انسانی و سیاسی حق ہے۔ بلوچستان کے لوگ بھی نوآبادیاتی جبر و قبضے سے آزادی کا مستحق ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔