اسلام آباد میں پریس کلب کے سامنے جبری لاپتہ راشد حسین بلوچ سمیت دیگر لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کیخلاف دوسرے روز بھی احتجاج جاری رہا، آج لواحقین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے جبری گمشدہ افراد کے لواحقین نے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے علامتی بھوک ہڑتال کیمپ قائم کیا، نیز ہم نے اپنے بیانات بھی میڈیا کو ریکارڈ کروائے جن میں اسلام آباد آنے کے اغراض و مقاصد اور اپنے قانونی و آئینی مطالبات شامل تھے ۔ یاد رہے کہ یہ صرف چند خاندان نہیں ہیں بلکہ بلوچستان سے مجموعی طور پر جتنے بھی گمشدہ افراد کی فیملیز ہیں ان سب کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ فیملیز یہاں تک پہنچے ہیں۔
پریس کانفرنس میں مطالبات پیش کیے گیے کہ راشد حسین سمیت دیگر تمام لاپتہ افراد کو فی الفور بازیاب کیا جائے۔ عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی موجودگی میں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، فیک انکاؤنٹرز اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی مکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بلوچستان میں ہونے والے سابقہ اور حالیہ تمام جبری گمشدگیوں کے کیسز کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کرائیں۔
انہوں نے کہا کہ مطالبات پر جب تک عملدرآمد نہیں ہوگا تب تک یہ فیملیز اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بیٹھی رہیں گی۔
انہوں نے کہا کہ آپ سب کو یہ بتانا لازمی امر ہے کہ بلوچستان اس وقت ایک جنگ زدہ خطہ ہے،اور بلوچ قوم کو ایک ایسی جنگ کا سامنا ہے کہ جہاں دشمن ریاست تمام اخلاقی حدیں پار کرچکا ہے۔ اس وقت بلوچستان میں کوئی ایسا علاقہ، ایسا خاندان، اور گھر نہیں ہے کہ جو ریاستی ظلم سے سالِم رہ گیا ہو، ہر گھر کی دوسرے گھر سے مختلف اور درد بھری کہانی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر لوگ جبراً لاپتہ کیے جارہے ہیں اور ایسے ہی جبری گمشدہ بلوچوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کردیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کل عبدوئ بارڈر تربت کے علاقے مند میں شعیب عبدالحمید نامی ایک جوان کو مسلح فورسز نے اس وقت شہید کیا جب وہ اپنی گاڑی میں موجود تھا۔
انہوں نے کہا کہ دیگر اطلاعات کے مطابق پچھلے چند دنوں میں دس افراد صرف فیک انکاؤنٹرز کا شکار بنے ہیں اور انہی افراد میں سے ایک بالاچ مولا بخش نامی جوان تھا جس کا ٹرائل تربت سیشن کورٹ میں چل رہا تھا، اور عدالتی حکم کے مطابق ۱۰ دنوں کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے تھا، لیکن سی ٹی ڈی نامی جنایت کار ادارے نے اس جوان کو بے دردی سے شہید کیا اور بعد میں اس پر دہشتگرد ہونے کا بے بنیاد اور جھوٹا الزام لگایا گیا۔
بالاچ کے لواحقین پچھلے پانچ دنوں سے تربت شہر میں شہید فدا محمد چوک پر بالاچ کی لاش کے ساتھ دھرنا دیے بیٹھے ہیں، اور انہی پانچ دنوں میں دھرنے کو سبوتاژ کرنے کیلئے ریاستی اداروں نے ہر ممکن کوشش کی یہاں تک کہ ریاست نے بوکھلاہٹ میں آکر لواحقین کو مال و زر کی پیشکش کی، انکو دھمکایا اور ہراساں بھی کیا ۔ اور مزید شہید بالاچ کی بہن “نجمہ بلوچ” کو پہلے ریاستی ادارے مذاکرات کے نام پر اپنے ساتھ لے گئے اور اسکے بعد کئی گھنٹوں تک انکو یرغمال بنایا گیا۔ تاکہ وہ اپنے مطالبات سے دستبردار ہو کر دھرنے کا اختتام کر دیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک ساتھ جڑ جانے کا وقت ہے ، اور اپنی اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کی نجات کے لئے باہر نکلیں اور اس یلغار کےخلاف ڈٹ جائیں جو کہی دہائیوں سے بلوچستان میں جبری طور پر بلوچوں کو اپنی زندانوں میں ڈالتے ہیں اور خاندانوں کو اذیت کا شکار بنا رہے ہیں۔اسی امید کے ساتھ ہم یہاں بیٹھے ہیں کہ بلوچ قوم ہمارے ساتھ کھڑی ہے ۔