اسرائیل حماس تنازع: خطے میں کشیدگی کا تناظر کیا ہے؟

198

سات اکتوبر کو حماس کے حملوں کے جواب میں اسرائیل کی مسلسل جاری بمباری سے غزہ میں انسانی بحران شدید ہو رہا ہے جس سے خدشات ہیں کہ مشرق وسطی کا تنازع ان ریاستوں کو متاثر کرسکتا ہے جن کی سرحدیں اسرائیل اور فلسطینی علاقوں سے ملتی ہیں۔

تاریخی طور پر خطے میں اسرائیل-حماس تنازع کئی دہائیوں سے جاری ہے لیکن عسکریت پسندوں کے اسرائیل پر مہلک ترین حملے کے ساتھ یہ تنازع اب ایک خطرناک نئے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔

اس تنازعہ سے جڑے خطے کے ملکوں اور مسائل پر ایک نظر:

مصر

مصر اور اسرائیل اپنی مشترکہ سرحد پر متعدد جنگیں لڑ چکے ہیں۔ 1948 سے 1967 کی چھ روزہ جنگ تک غزہ کی پٹی پر مصر کا قبضہ تھا جس کے بعد اسرائیل نے غزہ کا کنٹرول اور مصر کے جزیرہ نما سینا پر قبضہ کر لیا۔

سن 1973 کی یوم کپور جنگ ایک امن معاہدے کے ساتھ ختم ہوئی جس کے تحت مصر اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والی پہلی عرب ریاست بن گئی۔ بعد میں اسرائیل 1979 میں سینا سے پیچھے ہٹ گیا۔ تب سے مصر خطے میں اسرائیل کا سب سے اہم سیکیورٹی شراکت دار ہے۔

سال 2011 کے مصری انقلاب کے ذریعے برسراقتدار صدر حسنی مبارک کا تختہ الٹنے اور اخوان المسلمون کی حمایت یافتہ حکومت کے انتخاب کے بعد ان تعلقات کو ایک امتحان میں سے گزرنا پڑا۔ فلسطینی گروپ حماس اخوان المسلمون سے علیحدہ ہوگیا تھا۔

اگرچہ 2013 کی فوجی بغاوت نے اخوان المسلمون کو اقتدار سے ہٹا دیا لیکن سینا میں جاری شورش نے دونوں ممالک کو پریشان کر رکھا ہے۔

مصر کے ساتھ اسرائیل کی موجودہ سرحد بحیرہ احمر پر اسرائیل کے بندرگاہی شہر ایلات سے غزہ کی پٹی تک 245 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس سرحد پر جدید ٹیکنالوجی سے لیس ایک خاردار باڑ لگی ہوئی ہے جس کی اونچائی 5 سے 8 میٹر ہے۔

مصر بھی غزہ کے ساتھ اپنی سرحد پر اپنی رکاوٹ برقرار رکھتا ہے جس میں غزہ کے اندر اور باہر جانے والی واحد گزرگاہ رفح شامل ہے جو اسرائیل کے کنٹرول میں نہیں ہے۔

مصر نے غزہ میں حماس حکومت کے لیے اسرائیل کی ناکہ بندی کو نافذ کرنے کے ایک حصے کے طور پر اور سرحد کے اس پار ہتھیاروں، عسکریت پسندوں اور غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کو روکنے اور حفاظتی خدشات کی وجہ سے رفح بارڈر کراسنگ کو اکثر سختی سے محدود رکھا ہے۔

اردن

اردن نے اسرائیل کے خلاف 1948 کی عرب اسرائیل جنگ میں حصہ لیا اور اس کے بعد مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا۔ اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد اس علاقے کا کنٹرول چھین لیا۔

اردن نے 1988 میں مکمل طور پر علیحدگی اختیار کرنے اور اپنے علاقائی دعوؤں کو ترک کرنے سے پہلے کچھ انتظامی خدمات فراہم کرنا جاری رکھا۔

سن 1994 میں امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد سے اردن اور اسرائیل نے بڑے پیمانے پر اقتصادی اور سیکیورٹی تعاون کو برقرار رکھا ہے۔ تمام بقایا سرحدی مسائل حل ہو چکے ہیں۔

آج اردن کے ساتھ اسرائیل کی 482 کلومیٹر طویل سرحد پر تین کراسنگ ہیں اور مغربی کنارے کی تضفیہ طلب حیثیت کے باوجود اسے سب سے زیادہ محفوظ سمجھا جاتا ہے۔

دو ناموں یعنی “ایلنبی برج” اور “کنگ حسین برج” سے معروف پل اسرائیل سے باہر مغربی کنارے کی واحد سرحدی کراسنگ ہے اور اسے بیرون ملک سفر کرنے والے فلسطینی استعمال کرتے ہیں۔

شام

1949 کی جنگ بندی اور عرب اسرائیل جنگ کے خاتمے کے بعد اسرائیل اور شام کے درمیان غیر فوجی سرحدی علاقہ متنازع رہا، خاص طور پر بحیرہ گیلی کے ارد گرد پانی کے حقوق کے حوالے سے۔

1967 کی چھ روزہ جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں کے نام سے معروف، سطح مرتفع کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ اسرائیل نے اس علاقے سے “دروز” کے نام کی کمیونٹیز سمیت وہاں رہنے والے زیادہ تر شامی باشندوں کو باہر نکال دیا گیا تھا۔

اسرائیل کا اسٹریٹیجک اہمیت کی حامل گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ تل ابیب نے اقوام متحدہ کی قرارداد 242 کی “خطرات یا طاقت کی کارروائیوں سے پاک محفوظ اور تسلیم شدہ حدود” کی اپنی تشریح کے تحت ایسا کرنے کے حق کا دعویٰ کیا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 1981 میں اس علاقائی دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔ جب کہ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں امریکہ نے 2019 میں گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے الحاق کو تسلیم کیا تھا۔ تاہم زیادہ تر عالمی برادری اسے شام کا علاقہ تصور کرتی ہے۔

شام کی خانہ جنگی کے نتیجے میں خطے کو عدم استحکام اور کبھی کبھار سرحد پار سے فائرنگ کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ اس خانہ جنگی کے دوران ایران اور شیعہ عسکریت پسند گروپ حزب اللہ نے سنی باغیوں کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن میں صدر بشار اسد کو مدد فراہم کی تھی۔

جس کی وجہ سے شام اور ایران کا حماس کے ساتھ اتحاد ٹوٹ گیا۔ حماس بنیادی طور پر ایک سنی گروپ ہے جس نے شامی حکومت کے خلاف بغاوت کی حمایت کی تھی۔

لیکن 2018 تک ان کے تعلقات بڑی حد تک بحال ہو گئے تھے۔ تل ابیب سرکاری طور پر خانہ جنگی میں غیر جانبدار رہا ہے لیکن اس نے ملک میں فعال ایرانی اور حزب اللہ فورسز کے خلاف کئی حملے کیے ہیں۔

لبنان

اسرائیل کی لبنان کے مختلف مذہبی اور سیاسی دھڑوں کے ساتھ ایک پیچیدہ تاریخ ہے۔ لبنان نے 1948 اور 1967 کی جنگوں میں صرف ایک چھوٹا سا حصہ ادا کیا اور 1973 کی یوم کپور جنگ میں حصہ نہیں لیا۔

تاہم، جیسے ہی فلسطینی باغی گروپوں نے 1960 کی دہائی کے آخر میں جنوبی لبنان کو ایک اڈے کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا تو اسرائیل نے لبنانی سرزمین پر انتقامی حملے شروع کیے اور اس ملک میں فلسطینیوں کا قتل عام کرنے والی عیسائی ملیشیاؤں کے ساتھ اتحاد کیا۔

اسرائیل کے 1982 کے حملے اور جنوبی لبنان پر قبضے کے بعد، شیعہ عسکریت پسند گروپ حزب اللہ تشکیل پایا جس نے خطے میں اسرائیل کی دفاعی افواج اور اس کی اتحادی افواج پر حملہ کیا۔

اسرائیل نے 2000 میں اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ بلیو لائن سرحد سے دستبرداری اختیار کی لیکن “شیبا فارمز ” کے نام سے مشہور زمین کی پٹی پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا۔

اگرچہ شام سے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل نے شیبا فارمز پر قبضہ کیا تھا لیکن لبنان کا دعویٰ ہے کہ یہ ہمیشہ سے لبنان کا علاقہ رہا ہے۔

شیبا فارمز پر جاری تنازع کو حزب اللہ کے مزید حملوں کی ایک وجہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، جو ایرانی اور شامی حمایت کی وجہ اسرائیل کا ایک مضبوط اور مستحکم طور پر مسلح مخالف بن گیا ہے۔

جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔ سات اکتوبر 2023 کو غزہ کی پٹی کے ساتھ اسرائیل کی جنوبی سرحد پر حماس کے حملے کے بعد حزب اللہ نے بلیو لائن کے پار راکٹ داغے ہیں اور اسرائیلی فوج کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ کر رہے ہیں۔

اگرچہ ایران باضابطہ طور پر اس لڑائی میں ملوث ہونے کی تردید کرتا ہے، لیکن کچھ رپورٹس بتاتی ہیں کہ حما س کا حملہ مبینہ طور پر حزب اللہ اور ایران کے اسلامی انقلابی گارڈ کور کے ساتھ مل کر کیا گیا ہوگا۔

تناؤ میں اضافہ

یہ خطہ کئی ایسے علاقائی دعوؤں ، جو ابھی تک حل طلب ہیں اور بھاری فوجی موجودگی کے باعث اسرائیل اور فلسطین کے علاقے حالیہ جنگ پھوٹ پڑنے سے پہلے ہی کشیدگی کا شکا ر چلے آ رہے تھے۔ اس خدشے کے پیش نظر کہ اسرائیل فلسطین کا موجودہ تنازع بڑی علاقائی جنگ کی لپیٹ میں نہ آ جائے، امریکہ خطے میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کر رہا ہے۔

تحریر: ایلکس جینڈلر ، وی او اے نیوز