اسرائیلی فوج کی نظریں شمال کے بعد جنوبی غزہ پر: آگے کیا چیلنجز ہو سکتے ہیں؟

190
فائل فوٹو

شمالی غزہ میں کارروائیوں اور غزہ کے سب سے بڑے اسپتال پر حملے کے بعد اب ممکنہ طور پر اسرائیل اپنی زمینی کارروائیوں کا دائرہ جنوبی غزہ تک پھیلانے کی تیاری کررہا ہے۔

اسرائیلی فورسز نے جمعرات کو غزہ کے جنوبی قصبے خان یونس کے مشرقی علاقوں بنی شحیلہ، خزاعہ، ابسان اور قرہ میں ایسے پمفلٹس گرائے جن میں فلسطینیوں کو انخلاء کی ہدایت کی گئی ہے جس سے ان علاقوں میں اسرائیل کی فوجی کارروائی کا اندیشہ پیدا ہوا ہے۔

خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق جمعرات کو جنوبی غزہ کے رہائشیوں نے بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے فلسطینیوں کو جنوبی غزہ کے علاقوں سے بھی نکلنے کی وارننگ دی ہے۔

غزہ کے تقریباً 20 لاکھ بے گھر شہری جنوب میں پناہ گاہوں میں موجود ہیں۔ بے گھر ہونے والے افراد کی یہ تعداد پناہ گاہوں کی گنجائش سے زیادہ ہے۔ لہٰذا وہاں سرد موسم کے دوران وسیع فوجی کارروائی مزید سنگین بحران کو جنم دے سکتی ہے۔

حماس کے سات اکتوبر کے حملوں کے بعد اسرائیل نے شمالی غزہ میں مقیم فلسطینیوں کو شمالی غزہ اور غزہ سٹی کے علاقوں سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔

حماس کی کارروائی کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر جو حملے کیے اور زمینی آپریشن کا آغاز کیا تو اس کا ہدف بھی یہی بتایا تھاکہ وہ شمال کے گنجان آباد علاقوں میں حماس کے محفوظ ٹھکانوں اور زیرِ زمین سرنگوں کے نظام کو نشانہ بنا رہا ہے۔

اسرائیل نے بدھ کو غزہ کی پٹی کے شمال میں واقع مرکزی اسپتال الشفا میں کارروائی کی جسے وہ حماس کا ہیڈ کوارٹر قرار دیتا ہےتاہم وہ اب تک اس کا کوئی واضح ثبوت فراہم نہیں کرسکا ہے۔ حماس اور اسپتال کا عملہ اسرائیل کے ان تمام الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں۔

اسرائیل کی کارروائی کے مراحل

حماس کے سات اکتوبر کے حملوں میں اسرائیل میں کم از کم 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ 240 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ اسرائیل نے اس حملے کے بعد جب اعلانِ جنگ کیا تو اس نے اس کے دو مقاصد رکھے۔ پہلا یہ کہ تمام یرغمالیوں کو واپس لایا جائے۔ دوسرا حماس کی عسکری اور حکومتی صلاحیتوں کو ختم کیا جائے۔

پہلے مرحلے میں اسرائیل نے غزہ میں ہفتوں تک فضائی بمباری کی جس میں اسرائیل کے مطابق ہدف حماس کی عسکری تنصیبات تھیں۔ ان حملوں میں سے بہت سے رہائشی علاقوں میں کیے گئے۔

بعد ازاں لگ بھگ تین ہفتے قبل اسرائیل نے جنگ کے دوسرے مرحلے میں زمینی آپریشن کا آغاز کیا۔ اس آپریشن کا مقصد شمالی غزہ میں حماس کی عسکری صلاحیت کا خاتمہ کرنا بتایا گیا تھا۔

اس مرحلے کا مرکز انتہائی گنجان آباد غزہ سٹی ہے جہاں اسرائیل کے مطابق حماس کی اہم ترین عسکری تنصیبات ہیں۔ اسرائیل نے اپنی زمینی کارروائی کے دوران سابق پارلیمنٹ کی عمارت، پولیس ہیڈکوارٹرز اور اربن شاتی پناہ گزین کیمپ پر قبضہ کیا جس کے بعد اس کی فورسز بدھ کو غزہ کے سب سے بڑے طبی مرکز الشفا اسپتال میں داخل ہوگئیں۔

الشفا غزہ کا سب سے بڑا اور اہم ترین اسپتال ہے اور جس وقت اسرائیل نے کارروائی کی، وہاں انتہائی نازک حالت میں موجود سینکڑوں مریضوں کے ساتھ ساتھ قبل از وقت پیدا ہونے والے لگ بھگ تین درجن بچوں کا علاج کیا جارہا تھا۔

فلسطینیوں نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل کی کارروائی سے مریضوں کو خطرہ لاحق ہوا ہے۔ لیکن اسرائیل ان دعوؤں کو مسترد کرتا ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس نے اپنا اہم کمانڈ سینٹر اسپتال کے اندر چھپایا ہوا ہے۔ البتہ بدھ کو اسرائیل نے اسے ملنے والا عسکری سازوسامان اور ہتھیار تو دکھائے لیکن زیرِ زمین بنکرز اور جدید ترین کمانڈ سینٹرز کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔

اسرائیلی رہنماؤں نے اب تک کے آپریشن کی رفتار پر اگرچہ اطمینان کا اظہار کیا ہے لیکن اس کے باعث بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں۔

حماس کے زیرِ کنٹرول حکومت کے فلسطینی صحت حکام کہتے ہیں کہ اب تک غزہ میں 11 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ ہزاروں گھر تباہ ہوچکے ہیں جب کہ لاکھوں افراد نے جنوبی غزہ کی طرف نقل مکانی کی ہے جہاں وہ انتہائی نا گفتہ بہ حالات میں رہ رہے ہیں۔

اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ زمینی آپریشن کے دوران اب تک 46 فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔

اگرچہ اسرائیل کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ فلسطینی شہری جنوبی غزہ میں محفوظ ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں فضائی حملے جاری ہیں۔ اسرائیل کے بقول وہ حماس کے اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے لیکن فضائی حملوں میں عام شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

تاہم اسرائیل کی جانب سے جنوب کی طرف اپنی توجہ کرنے سے وہاں صورتِ حال مزید مشکل ہوسکتی ہے۔

جنوبی غزہ کیوں؟

اسرائیل کے رہنماؤں نے غزہ میں بڑھتی ہوئی ہلاکتوں اور بگڑتی ہوئی انسانی صورتِ حال کے بارے میں بین الاقوامی خدشات کو بڑی حد تک مسترد کردیا ہے اور حماس کے خاتمے تک آگے بڑھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ وہ جنوبی غزہ کی طرف بڑھے گا جہاں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ حماس کا عسکری ڈھانچہ برقرار ہے جس میں اس کے ہزاروں جنگجو اور زیرِ زمین سرنگوں کا نیٹ ورک بھی شامل ہے۔ حکام کو یہ بھی شبہ ہے کہ حماس کے اعلیٰ کمانڈر اس علاقے میں چھپے ہوسکتے ہیں۔

اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے بدھ کو غزہ سرحد پر اسرائیلی فوجیوں سے کہا تھا کہ “غزہ میں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں ہم نہ پہنچ سکیں۔ حماس کے قاتلوں کے لیے کوئی چھپنے کی جگہ نہیں، کوئی پناہ گاہ نہیں۔”

اسرائیلی فوج کے غزہ ڈویژن کے سابق ڈپٹی کمانڈر اور ریٹائرڈ جنرل عامر اویوی کہتے ہیں کہ اب آپریشن کو ختم کرنا کوئی آپشن نہیں ہے۔ ان کے بقول “آپ پوری غزہ کی پٹی کو حاصل کیے بغیر حماس کو واقعی ختم نہیں کرسکتے۔ یہ نا ممکن ہے۔”

چیلنج کیا ہیں؟

اسرائیل کی جنوب کی طرف پیش قدمی پر اسے کئی چیلنجز درپیش ہوسکتے ہیں۔

غزہ کی زیادہ تر آبادی اب پناہ گاہوں یا گھروں میں موجود ہے اور حماس رہائشی علاقوں میں سرایت کرچکی ہے۔ لہٰذا جنوب میں سڑکوں پر ہونے والی شدید لڑائی کے نتیجے میں زیادہ شہریوں کی ہلاکت ہوسکتی ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان ہلاکتوں کی ذمہ دار حماس ہے کیوں کہ اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ لیکن عالمی برادری بالخصوص اسرائیل کے قریبی اتحادی امریکہ نے بھی شہریوں کی ہلاکت پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔

امریکہ نے اسرائیل کو جنگ ختم کرنے کے لیے نہیں کہا ہے لیکن اسرائیلیوں کو خبردار کیا ہے کہ جنگ جتنی طویل ہوگی بین الاقوامی تنقید میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔

سابق اسرائیلی کمانڈر عامر اویوی کا کہنا ہے کہ بے گھر ہونے والے کئی فلسطینی “انسانی ہمدردی کے زون” میں منتقل ہوسکتے ہیں جسے اسرائیل جنوب مغربی غزہ یا اس سے بھی بہتر پڑوسی ملک مصر میں تعمیر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کے بقول یہ ان فلسطینیوں کے لیے محفوظ جگہ ہے۔

تاہم مستقبل کے لیے ان تمام مجوزہ خاکوں میں سے ہر ایک میں مسئلہ ہے۔ مصر بار ہا واضح کرچکا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں بڑی تعداد میں فلسطینی پناہ گزینوں کا داخلہ نہیں چاہتا اور بائیڈن انتظامیہ بھی خبردار کرچکی ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے باہر دھکیلا جانا نہیں چاہیے۔

انسانی ہمدردی کے لیے تجویز کردہ علاقے کو مواصی کہا جاتا ہے جو نسبتاً چھوٹا اور پسماندہ علاقہ ہے جہاں لاکھوں لوگوں کی مدد کے لیے کوئی بنیادی انفرااسٹرکچر نہیں ہے۔

موسمِ سرما کے دوران بارش کے مہینوں میں پناہ گزینوں کو خیموں میں رکھنا کافی نہیں ہوگا کیوں کہ برسات کے بعد سردی کی شدت بہت بڑھ جاتی ہے۔

ایک ریٹائرڈ اسرائیلی جنرل اور اسرائیل کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سربراہ جیورا ای لینڈ کے مطابق بین الاقوامی دباؤ کا بہت کم اثر پڑے گا۔

ان کے بقول اسرائیل میں جنگ کے لیے اتنی وسیع حمایت موجود ہے جسے روکنا مشکل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اس پر اس وقت نظرثانی کرسکتا ہے اگر حماس ہتھیار ڈال دیتی ہے یا ختم ہوجاتی ہے یا قطر جیسے بین الاقوامی ثالثوں کے ذریعے مغویوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ یہ ایسے منظرنامے ہیں جن کا امکان کم نظر آتا ہے۔

ای لینڈ نے کہا کہ اسرائیل کو آپریشن مکمل کرنے میں مزید دو یا تین ماہ لگ سکتے ہیں۔ اس دوران سنگین انسانی بحران “ناگزیر” ہو جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ “مجھے نہیں لگتا کہ کوئی معقول طریقہ ہے جس سے ہم وہاں انسانی بحران کو روک سکیں۔ ہر کوئی وہاں سے خوف ناک مناظر سامنے آنے کی توقع کرسکتا ہے۔ مگر اس سے اسرائیل نہیں رکے گا۔”