اتحاد یا انضمام، بلوچ قومی تحریک کا مستقبل
تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
حالیه دنوں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کی جانب سے بلوچ آزادی پسند تنظیموں کے متعلق ایک عنوان ( بلوچ تنظیموں کو انضمام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟) پڑھنے کو ملا جس میں بلوچ قومی رهنماء ڈاکٹر الله نزر بلوچ اور بشیر زیب بلوچ کے اتحاد و انضمام کے حوالے سے باتیں شامل کی گئیں تھی.
بی بی سی کے مطابق انضمام کے متعلق بشیر زیب کا موقف هے که مشترکه و موثر جدوجهد کے لئے یه اقدامات ضروری عمل هے جبکه ڈاکٹر الله نزر کے مطابق اتحاد و انضمام کی کوششیں پهلی بھی جاری تھی جس میں پیش رفت اور کامیابی ملی جس کا مقصد ایک مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مرکزیت کی طرف مائل هونا هے.
مستقبل کے تنظیم کی قیادت کے متعلق یه کها گیا که بلوچ قومی تحریک کی قیادت همیشه تنظیموں اور اسکے محکموں نے کی هے اور مستقبل میں بھی قیادت تنظیم هی کریں گی.ایک قومی قوت کی تشکیل کے لئے بیرونی ممالک میں موجود قیادت کو بھی دعوت نامه ارسال کیا گیا هے.
جبکه اس رپورٹ کے متعلق ماهر تجزیه کار کهتے هیں که بی ایل اے اور بی ایل ایف کی کاروائیوں سے ظاهر هوتا هے که ان تنظیموں میں تعاون کا عنصر موجود هے جبکه انضمام کی صورت میں ایک دوسروں کو برداشت کرنے کا رحجان بھی زیاده دیکھنے کو ملے گا.
اگر دیکھا جائے تو بلوچ قومی تحریک کے لئے اتحاد و انضمام کی کوششیں اهم پیش رفت اور کامیابی کی نوید هے اور اگر اس میں کامیابی ملتی هے تو نه صرف بلوچ قوم کے لئے ایک تحفه هوگا بلکه ریاست پاکستان کے لئے بھی چیلنجز کا ایک پهاڑ کھڑا هوجائیگا جس سے نبرد آزما هونا موجوده وقت میں پاکستان کے لئے ایک عذاب سے کم نهیں هوگا.
اس رپورٹ میں زیاده تر انضمام کے حوالے سے بات کی گئی هے لیکن موجوده دور میں تمام تنظیموں کو ایک مرکزیت تلے متحد کرنا ناممکن تو نهیں لیکن مشکل اور چیلنجز سے بھرپور ضرور هوگا لیکن قوی امید هے که مستقبل قریب میں بلوچ قومی تنظیمیں ایک مرکزیت تلے متحد هو کر ریاستی بربریت و نحوست کو بلوچستان سے نکالنے میں کامیاب هونگے.
اتحاد دو یا دو سے زائد تنظیموں یا جماعتوں کا مل کر ایک هوجانا هے اور ان میں هم خیالی و همدلی کے جذبے کا نام اتحاد هے. جبکه انضمام دو تنظیموں کا ایک دوسرے میں پیوست هونا، مدغم هونا یا شامل هونا کهلاتا هے.
بات یه هے که اس رپورٹ میں زیاده تر انضمام کے حوالے سے مواد شامل کئے گئے هیں تو کیا بلوچ قومی تحریک سے منسلک تمام تنظیمیں موجوده وقت میں انضمام کے لئے تیار هے؟ کیا تمام تنظیمیں قومی مفاد کو مد نظر رکھ کر مرکزیت کے تلے متحد هوجائیں گے؟ میرے رائے کے مطابق دو تنظیمیں جن میں اشتراک عمل و تعاون کا جذبه دیگر تنظیموں کے مقابلے میں زیاده هے اور وه تنظیمیں بی ایل اے اور بی ایل ایف هے اگر ان دو تنظیموں میں انضمام هوا تو یه ایک اهم کامیابی تصور کی جائیگی جبکه ان دو تنظیموں کے انضمام کے بعد دیگر تنظیموں سے اتحاد کا هاتھ بڑھا کر قومی تحریک کو مضبوط بنایا جاسکتا هے.
هم ایک قوم هے، همارا مقصد بھی ایک هے تو کیوں نه ایک طاقت بن کر دشمن کا مقابله کیا جائے ویسے بھی بلوچ تحریک سے منسلک تمام تنظیمیں اور پارٹیاں قابل احترام و قابل قدر هے اور یهی قدر و احترام کا جذبه هی اتحاد کی راه کو هموار کرسکتا هے.
کسی بھی اتحاد میں سچ اور باهمی انصاف اهم کردار ادا کرتا هے. اسی اصول کی بنیاد پر هی هم نه صرف مثبت طرز عمل اپنا سکتے هیں بلکه ایک دوسرے کے نقطه نظر کو سمجھتے هیں اور اسکے حق رائے کو تسلیم کرسکتے هیں. اتحاد منظم هوں اور باقاعده ایک تنظیمی نظم و ضبط کی پابند هو نه که کسی شخصیت یا کسی گروه کی جبکه اختلافات کو دلائل اور برادشت کی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش هو جو اتحاد کو مضبوط کرنے کا باعث هوگا.
بلوچ قوم اس سے قبل بھی اتحاد تشکیل دے چکی هے جن میں مسلح تنظیموں کا اتحاد براس جبکه سیاسی اتحاد بی این ایف شامل هے لیکن سوال یه هے که ان کا مستقبل کیا هوا؟ اب بھی یه سوال موجود هے که آئنده دنوں میں هونے والا اتحاد یا انضمام بھی ماضی کے تجربوں کی طرح تو نهیں هوگا جو جذباتی بنیادوں یا شخصی خواهشات پر شروع هو کر ختم هوجائے اور قوم کو بجائے بهره مند کرنے کے مایوسی کے دلدل میں پھینک دے.
بلوچ قیادت کو اس سلسلے میں مکمل تیاری کے ساتھ میدان میں آنا چاهئیے تاکه انضمام یا اتحاد کے حوالے سے جو فیصله هو وه قومی مفادات و ضروریات کو مد نظر رکھ کر بنایا جائے تاکه قوم میں ایک امید و آزادی کے تحریک کے لئے مکمل حمایت پیدا هوجائے.
گوریلا جنگ ایک عظیم سیاسی مقصد کا حصه هے جو عوام کے لئے هوتی هے جس میں اندرونی و بیرونی اتحاد اهم کردار ادا کرتا هے. آج اندرونی محاذ پر اتحاد و انضمام کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارهی هے اس لئے قیادت جذباتیت سے پرهیز کرکے ایک ایسے اتحاد یا انضمام کی جانب جائیں جو نه صرف وسائل کے اشتراک پر مشتمل هو بلکه سیاسی مسائل کا اشتراک بھی شامل هو. جبکه بیرونی محاذ پر ایسے اتحادی تلاش کئے جائیں جو وقت کے لحاظ سے هماری ضروریات کو پورا کرسکیں.
آخر میں یهی کهوں گا که انضمام و اتحاد کے حوالے سے مذاکرات نهایت هی اهم کامیابی اور پیش رفت هے لیکن افسوس سے کهنا پڑ رها هے که اتنی بڑی کامیابی کے بعد بھی بلوچ حلقوں میں اس حوالے سے ڈسکشن دیکھنے کو نهیں مل رها جبکه سوشل میڈیا میں بھی اس متعلق مکمل خاموشی هے جو قابل افسوس هے.
اب بلوچ قومی قیادت کی ذمه داری هے که وه ایک ایسا ماحول پیدا کریں جس میں تنظیموں کے ممبران، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اپنے سرکلز میں اس کامیابی پر آزادانه و علمی ڈسکشن کا آغاز کرکے اپنی رائے اور تجاویز قیادت تک پهنچائیں جبکه سیاسی پارٹیوں بی این ایم ، بی ایس او آزاد کو بھی اس پیش رفت پر علمی ڈسکشن کا آغاز کرنا چاهئیے جبکه عام بلوچ کو بھی مکمل رائے کا حق دیا جائے تاکه رائے عامه کو هموار کرکے عام بلوچ عوام کو بھی شامل کرکے ایک مضبوط اتحاد یا مضبوط انضمام کو یقینی بنا کر ناسور ریاست کو شکست فاش دیکر بلوچستان سے باهر نکالا جائے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔