سی ٹی ڈی جعلی مقابلوں اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بی وائی سی

123

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے میڈیا کو جاری کردہ اپنے ایک بیان میں سی ٹی ڈی کی جانب سے خضدار میں جعلی مقابلے اور کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں جبری گمشدگیوں کے واقعات میں اضافے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں پہلے جن افراد کو سیکورٹی فورسز قتل کرکے سڑکوں کے کنارے پھینک دیتے تھے اب انہیں سی ٹی ڈی کی جانب سے نام نہاد انکاؤنٹر میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سی ٹی ڈی کی جانب سے اب تک ایک بھی حقیقی مقابلہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ سی ٹی ڈی کی پہنچان اب یہی بن چکی ہے کہ وہ فیک انکاؤنٹرز میں لاپتہ افراد کو نشانہ بناتا ہے۔ سی ٹی ڈی جب بھی نام نہاد مقابلے کا دعویٰ کرتا ہے تو بلوچستان کے لاپتہ افراد کے گھروں میں ماتم چا جاتا ہے کیونکہ انہیں اس بات کا علم ہوچکا ہے کہ فورسز سی ٹی ڈی کا نام استعال کرکے بےگناہ افراد کو قتل کرتے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ یہ اب ڈھکی چھپی بات نہیں کہ کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ کو بلوچستان کے سطح پر فکشنل کرنے کا بنیادی مقصد لاپتہ افراد کو فیک انکاؤنٹر میں نشانہ بنانا تھا کیونکہ پہلے یہ کام سیکورٹی ادارے خود کرتے تھے۔ خضدار میں جن افراد کو فیک انکاؤنٹر میں نشانہ بنایا گیا ہے ان کےنام پہلے ہی لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھے لیکن چونکہ بلوچستان میں ریاستی ادارے خود کو کسی کے پابند نہیں سمجھتے اس لیے انہیں اس کی پرواہ نہیں کہ کون کب لاپتہ ہوا ہے بلکہ بلوچستان کو لہو لہون کرنے کیلئے جب جی چاہتا ہے کسی کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔ سی ٹی ڈی کے ان کارروائیوں میں بے گناہ افراد کو نشانہ بنانا اور مین اسٹریم جماعت اور عدالتوں کی جانب سے ان سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموشی اختیار کرنا اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ پاکستان نے بلوچستان کو مکمل طور پر فورسز کے حوالے کرکے چھوڑ دیا ہے جو کسی بھی سطح پر ریاست کیلئے سہی نہیں ہے۔ اگر پاکستان میں عدالتیں اور مین اسٹریم جماعتیں بلوچستان کو پاکستان کا حصہ سمجتی ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اس سنگین ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائیں۔ ایسے اقدامات سے ریاست بلوچوں کے دلوں میں نفرت کا زہر بھر رہی ہے۔ جس طرح بے گناہ افراد کو دن دہاڑے قتل کرنے کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب سیکورٹی ادارے بلوچستان بھر سے نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں میں بھی مصروف عمل ہیں۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر سے حالیہ دنوں درجنوں افراد کو اٹھایا گیا ہے جن کے حوالے سے ان کے لواحقین نے میڈیا کو آگاہ کیا ہے لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا جو بلوچستان کے حوالے سے ان کی سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔

ترجمان نے بلوچ عوام پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے مین اسٹریم جماعتوں، عدالت اور انسانی حقوق کے اداروں نے فیصلہ کر لیا ہےکہ انہیں بلوچستان کے حالات سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہاں جاری نسل کشی کے حوالے سے وہ اپنے فیصلے کے مطابق خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اس لیے بلوچ عوام کو چاہیے کہ وہ خود ان غیر انسانی اقدامات کے خلاف سیاسی جدوجہد کا حصہ بنیں اور ریاست کے ان مظالم کو سیاسی سطح پر چیلنج کریں ورنہ وہ ہمارے نوجوانوں کو اسی طرح فیک انکاؤنٹرز میں نشانہ بناتی رہے گی۔