پاکستانی فوجی اہلکاروں کی گرفتاری – بی ایل اے کا خصوصی دستہ کیا ہے؟ – ٹی بی پی رپورٹ

6125

پاکستانی فوجی اہلکاروں کی گرفتاری – بی ایل اے کا خصوصی دستہ کیا ہے؟

دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

تحریر: باہوٹ بلوچ

بدھ 11 اکتوبر کو پاکستان کی پیرا ملٹری فورس فرنٹیئر کور کے دو اہلکاروں صوبیدار محمد خان اور سپاہی عبدالرشید کو مسلح افراد نے اس وقت حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جب وہ بولان کے علاقے مارگٹ سے گذر رہے تھے۔ دونوں اہلکار ایک بس میں سفر کررہے تھے کہ شاہراہ پر مسلح افراد نے بس کو روکا اور شناخت کے بعد ان کو اپنے ہمراہ لے گئے۔

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے دونوں اہلکاروں کو حراست میں لینے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ بی ایل اے ترجمان جیئند بلوچ نے ایک جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ یہ کارروائی بلوچ لبریشن آرمی کے اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنز اسکواڈ (ایس ٹی او ایس) نے بی ایل اے انٹیلجنس ونگ کی فراہم کردہ خفیہ معلومات کی بناء پر سرانجام دی۔

قبل ازیں 14 ستمبر 2023 کی شام کوئٹہ شہر سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ولی تنگی کے مقام پر پاکستانی فوج کے نئے تعمیر کیئے گئے پوسٹوں پر بلوچ لبریشن آرمی نے حملہ کرکے انہیں اپنے قبضے میں لے لیا۔

ولی تنگی حملے کی ویڈیو بی ایل اے کے میڈیا چینل ہکّل پر ‘چودہ منٹ اور چودہ جنگجو’ کے ٹائٹل کے ساتھ جاری کیا گیا۔ ویڈیو کے آغاز میں واضح کیا گیا کہ بی ایل اے کے خصوصی دستے ‘فتح اسکواڈ’ نے اس آپریشن میں حصہ لیا۔

بلوچ لبریشن آرمی کے مختلف خصوصی دستے تشکیل دیئے جاچکے ہیں جن کا اظہار مختلف اوقات میں بذریعہ بیانات، ویڈیوز اور تصاویر کے ساتھ کیا جاچکا ہے۔

بی ایل اے – اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنز اسکواڈ (ایس ٹی او ایس) کیا ہے؟

بی ایل اے – اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنز اسکواڈ کے حوالے سے باضابطہ بیان 21 اکتوبر 2018 کو اس وقت سامنے آئی جب بی ایل اے کا ایک جنجگو فتح قمبرانی عرف چیئرمین بولان کے علاقے مچھ میں پاکستانی فوج سے ایک جھڑپ میں جانبحق ہوا۔

بی ایل اے ترجمان جیئند بلوچ نے بیان میں بتایا کہ فتح قمبرانی بی ایل اے – اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنز اسکواڈ کے کمانڈر کی حیثیت سے سرگرم تھے۔

تنظیم کے شائع لٹریچر میں بتایا گیا کہ ‘ایس ٹی او ایس یا اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنز اسکواڈ بلوچ لبریشن آرمی کا اعلیٰ تربیت یافتہ وہ خصوصی دستہ ہے جو شہری اور پہاڑی علاقوں میں بلوچ لبریشن آرمی کے خصوصی آپریشنوں کو پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ سرانجام دیتا ہے۔’

بلوچ لبریشن آرمی کی کارروائیوں پر مشتمل رسالہ ‘دکّ’ میں بی ایل اے – ایس ٹی او ایس کا خصوصی ضمیمہ شامل کیا جاتا ہے، جن میں اس دستے کی کارروائیوں اور جانبحق افراد کا ذکر بھی کیا جاتا ہے، جو اس دستے کا حصہ ہوتے ہیں۔

دک 2022 کی رپورٹ کے مطابق بی ایل اے – ایس ٹی او ایس نے گذشتہ سال بلوچستان بھر میں 9 کارروائیاں کیں جن میں زیارت سے پاکستان فوج کے حاضر سروس کرنل لئیق بیگ مرزا کو حراست میں لینا، ہرنائی سے پاکستان فوج اور خفیہ ادارے کے دو اہلکاروں کو حراست میں لینا اور اس دوران آپریشن میں مصروف ایک ہیلی کاپٹر کو تباہ کرکے افسران سمیت چھ اہلکاروں کو ہلاک کرنا شامل ہیں۔

جبکہ گذشتہ سال کے اواخر 25 دسمبر کو بی ایل اے کے سابق سربراہ جنرل اسلم بلوچ کی برسی کے موقع پر سلسلہ وار حملوں میں دو شدید نوعیت کے حملے تربت اور کاہان میں ہوئے جن میں مجموعی طور پر پاکستان فوج کے ایک کیپٹن اور کمیشند افسر سمیت 15 اہلکار ہلاک ہوئے۔ مذکورہ دونوں کارروائیاں بھی بی ایل اے کے ایس ٹی او ایس نے سرانجام دیئے۔

علاوہ ازیں شہروں میں اس دستے نے مسلح حملوں کے علاوہ بم دھماکوں میں پاکستان فوج کی حمایت یافتہ افراد کو نشانہ بنایا۔ بلوچستان کے شہروں میں اسی دستے نے ‘مقناطیسی بم’ کو متعارف کیا۔

اس دستے کے ارکان میں طارق مری عرف ناصر بولان اور ہرنائی کے پہاڑی سلسلے میں 23 اکتوبر 2021 کو جنترو کے مقام پر پاکستان فوج کیساتھ ایک جھڑپ میں جانبحق ہوا۔ بی ایل اے کے بیان میں بتایا گیا کہ طارق مری عرف ناصر سکنہ کاہان، بلوچ لبریشن آرمی بولان ریجن کے اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنل اسکواڈ کے کمانڈر تھے۔

اس دستے کا شہری رکن تابش عنایت عرف ریحان سکنہ خدابادان، پنجگور 29 جولائی 2021 کی رات پنجگور میں پاکستانی فوج کے ساتھ ایک مسلح جھڑپ میں جانبحق ہوا۔

بلوچ لبریشن آرمی کے اس دستے کو رواں سال شائع ہونے والے بی ایل اے کے سربراہ بشیر زیب بلوچ کے ویڈیو پیغامات میں بھی دیکھا جاسکتا ہے، جہاں اس دستے کے ارکان کو مخصوص یونیفارم پہنے اور جدید اسلحہ تھامے دیکھا جاسکتا ہے۔

بی ایل اے – فتح اسکواڈ کیا ہے؟

تنظیم کے لٹریچر کے مطابق ‘ فتح اسکواڈ، بلوچ لبریشن آرمی کا پانچواں ونگ اور “ہراول دستہ” ہے۔ اکتوبر 2018 تک فتح اسکواڈ بی ایل اے کے چوتھے ونگ “ایس ٹی او ایس” کا ہی ایک منظم حصہ تھا۔ تاہم 20 اکتوبر 2018 کو سرمچار فتح قمبرانی عرف چیئرمین کے جانبحق ہونے کے بعد، بی ایل اے نے فتح قمبرانی کی  بہادری کے اعتراف میں “فتح اسکواڈ” کو انکے نام سے منسوب کرکے، ایک جدا  ونگ کی حیثیت دے دی۔’

مزید بتایا گیا ہے کہ ‘بلوچ لبریشن آرمی کی یہ “ایلیٹ ونگ” پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مالک، تجربہ کار سرمچاروں پر مشتمل ہے، جو ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے، دشمن کے متعدد کیمپوں پر قبضہ جمانے میں کامیاب رہی ہے۔’

بی ایل اے نے 31 مئی 2021 کو بولان کے علاقے مارواڑ میں پاکستانی فوج کے غازہ بند سکاؤٹس 129 ونگ کی اویس کیمپ کو ایک شدید نوعیت کے حملے میں نشانہ بنایا، مذکورہ حملے میں پاکستان فوج کے 24 اہلکار مارے گئے اور ایک کو جنجگوؤں نے گرفتار کرلیا۔

مذکورہ حملے میں بی ایل اے کے 3 جنگجو بھی مارے گئے، جن میں ہنگل مری عرف لیلا، آفتاب جتک عرف وشین اور شاویز زہری عرف سارنگ شامل ہیں۔

بی ایل اے ترجمان نے بتایا کہ تینوں افراد بلوچ لبریشن آرمی کے ہر اول دستے کے رکن تھے۔ ترجمان نے مزید بتایا کہ فتح اسکواڈ میں تنظیم کے وہ چنیدہ نڈر سرمچار شامل ہیں، جو خداداد جنگی صلاحیتیوں کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ یہ خاص تربیت بھی حاصل کرچکے ہیں کہ وہ روبرو مقابلوں میں سرمچاروں کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کے صفوں کو توڑ کر اندر داخل ہوجائیں۔

فتح اسکواڈ کے حوالے سے شائع کتابچے میں اسکواڈ کے 17 نکات پر مشتمل اصول و ضوابط درج ہے، مذکورہ نکات میں یہ نکات بھی شامل ہے کہ اسکواڈ کے رکن شمولیت کے بعد اپنے اختیار میں نہیں ہونگے، اور تمام فیصلوں میں مرکز کے پابند رہیں گے۔ بھاگنے، سرنڈر کرنے یا تنظیم چھوڑنے کی صورت میں مذکورہ کارکن مار دیا جائے گا۔  اسکواڈ رابطے کے لیئے ٹیکنالوجی کا استعمال مخصوص اوقات سے باہر نہیں کرے گا۔ اسکواڈ کے سنگتوں کے شہید ہونے کی صورت میں، نام ظاہر کرنا مشن کے مطابق تنظیم کی ذمے داری ہوگی۔ اسکواڈ کے ارکان اپنا رینک کسی صورت بھی ظاہر نہیں کریں گے۔

اختتامیہ

بلوچ لبریشن آرمی کی کارروائیوں میں  تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔ گذشتہ پانچ سال کے دوران بی ایل اے  – مجید برگیڈ جہاں اپنے حملوں میں شدت لاچکی ہے، وہی پہاڑوں اور شہروں میں تنظیم نے مختلف نوعیت کے کارروائیاں سرانجام دی ہے جن میں طریقہ کار میں بدلاؤ دیکھنے میں آئی ہے۔

بی ایل اے انٹیلی جنس ونگ تربت میں پاکستان فوج کے خفیہ ادارے کے اعلیٰ آفسران کی معلومات جمع کرنے سمیت گوادر کے حساس علاقے میں چینی کمپنی کے اہلکاروں کی نقل و حرکت کی معلومات کو بھی جمع کرنے میں کامیاب نظر آئی جبکہ ولی تنگ، مارواڑ، کاہان اور دیگر مقامات پر پاکستانی فوج کے کیمپوں پر قبضہ جمانے میں کامیابی اور مرکزی شاہراہوں پر ناکہ بندی کرکے فوجی آفسران و اہلکاروں کو حراست میں لینا بلوچ لبریشن آرمی کے دستوں کی مضبوطی کو واضح کرتی ہے۔

شدید نوعیت حملوں کے ردعمل میں پاکستان فوج کیجانب سے پہلے سے زیرحراست (جبری لاپتہ) افراد کو قتل کرنا فوج کے ناکامیوں کو واضح کرتی ہے جبکہ مستقبل میں ان دستوں کی مزید مضبوطی کا قوی امکان موجود ہے۔

بی ایل اے سربراہ بشیر زیب بلوچ اپنے پیغام میں کہہ چکے ہیں کہ’  ہمیں اپنے جنگ کو یہاں تک لانا ہوگا کہ اسلام آباد، پنجاب، پنڈی، لاہور اور گجرانوالہ کے لوگ باہر نکلیں، فریاد کریں اور پاکستان سے کہیں کہ اب بس کرو بلوچستان میں جنگ بند کرو۔’