بلوچ وومن فورم کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں پسنی سے پندرہ سالہ نازیہ بلوچ کی خودکشی اور وڈھ میں ماں بیٹے کے بے رحمانہ قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان ایک ایسی قدیم تاریخ رکھتی ہے جہاں غیر اقوامی قبضہ گیریت، شدید جنگی حالتوں میں بھی خواتین کو تحفظ حاصل رہا ہے بلوچ خواتین کو جنگی دور میں بھی ایسا وقارانہ مقام حاصل رہا جہاں جنگیں بھی اُنکی احترام میں روکھ دی جاتی تھیں مگر آج بلوچ خواتین اپنے ہی سرزمین ، اپنے ہی قوم کے درمیان اپنے گھر و گِدانوں میں محفوظ نہیں رہیں۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں ایسے کئی واقعات گزرے ہیں جن میں برائے راست خواتین کو قتل کیا گیا ،جن میں ملک ناز، کلثوم اور آج وڈھ میں ایک بلوچ ماں کی قتل اُسی ریاستی اجتماعی سزا کا ایک خاص حصہ ہے۔ یاد رہے کہ بلوچستان میں بلوچ خواتین کو ایک جانب سنگین ریاستی اجتماعی سزا کا سامنا ہے تو دوسری طرف بلوچ سماج کو بلوچ خواتین کے لیے مذہبی جنونیت اور فرسودہ روایتوں میں منتقل کیا گیا ہے جس کی فضاء میں بلوچ خواتین کو نہ صرف چار دیواریوں میں محدود کر رکھا ہے بلکہ انکی انسانی آزادی، حقوق نسواں اور صنفی برابری نہ ہونے کے برابر ہے مساوی مواقع تو دور کی بات خواتین کی بقاء ہی بلوچستان میں ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے خواتین کے حقوق پر حکومتی دعوے صرف زبانی کلامی ہی ثابت ہو رہے ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا ہے کہ پسنی میں نازیہ بلوچ کی خودکشی سے متعلق معلومات پر تنظیم کو تشویش ہے کہ یہ بظاہر خودکشی پیش کیا جارہا ہے مگر اس کے پیچھے کئی محرکات نظر آرہے ہیں جن کو درگزر نہیں کیا جاسکتا۔
چند مہینوں میں ہی خودکشی کے کئی کیسز سامنے آئے ہیں تمام خودکشی کے واقعات الگ نوعیت کے رہے ہیں ان واقعات میں نجمہ بلوچ ، سمی بلوچ ولد علی حیدر،اٹھارہ سالہ ندا اور اب نازیہ بلوچ کا واقعہ سامنے آیا ہے۔
ترجمان نے بیان کے آخر میں کہا ہے کہ بلوچ خواتین کی بقاء ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے ہر انسان کو زندہ رہنے کا مکمل حق حاصل ہے لیکن بلوچ خواتین سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ بلوچ وومن فورم بین القوامی انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتی ہے کہ بلوچستان میں خواتین کے حقوق اور اُنکے بقاء کے لیے آواز اٹھائے۔