ورلڈ سندھی کانگریس کے زیر اہتمام ۳۵ واں انٹرنیشنل کانفرنس سے بی این ایم کے مرکزی جونیئر جوائنٹ سیکرٹری حسن دوست بلوچ نے اپنا مقالہ پڑھتے ہوئے کہا کہ آج ہم اپنے اپنے تاریخ کے مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ لیکن یہ ہمارے تاریخ کے یادگار باب بھی ہیں کہ ہم اپنے اپنے وطن کی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کس حکمت عملی، جدت، بہادری اور تاریخی بنیادوں پر ہمسایوں کو ساتھ ملا کر اپنی اپنی سرزمین اورعالمی سفارتی محاذ پر یہ جنگ لڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سندھو دیش ایک عظیم ملک ہے۔ ہندوؤں کے مقدس کتاب رگ وید کے زمانے 1500 ق م میں سندھو کو سندھو ہی کہا جاتا تھا۔ تاریخی اعتبار سے سندھو دریا پورے خطے کا ”ان داتا“ ہے۔ سندھ پر کئی حملہ آور آئے۔ آج سندھو دریا کے واسی بلوچوں کی طرح اپنی تاریخ کے وحشتناک دور سے گزررہے ہیں کیونکہ یہ حملہ آور سابق حملہ آوروں سے زیادہ چالاک، زیادہ بے رحم اورقومی وانسانی اقدارسے محروم ہے۔
انہوں نے کہا کہ سابقہ حملہ آورلوٹ مارکرکے چلے جاتے یا ان کے دورمیں ذرائع اتنے جدید اور طاقتورنہ تھے کہ وہ سماج کی رسم و رواج اور قومی تشخص کو یکسر بدل دیتے لیکن پاکستان مختلف ہے۔ یہ نہ صرف وسائل کی لوٹ مارکرتا ہے بلکہ زمین، ساحل اور سمندر کے ساتھ تہذیب، ثقافت، مذاہب، روایات اور اقدار پر بھی حملہ آور ہے۔ اس کے پاس جدید ذرائع ہیں؛ میڈیا ہے، تعلیمی نظام ہے، اپنا تشکیل کردہ یا متعارف کردہ مذہب ہے اور اسے پھیلانے کے لیے لاکھوں افرادی قوت کا بندوبست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی قبضہ ماضی کے کسی بھی قبضہ گیر کے مقابلے میں زیادہ نقصان دہ ہے۔ یہ ہم سے ہماری قومی اقدار، ہماری قومی تشخص، ہماری قومی زبان اور ہم سے ہماری قومی نفسیات چھین رہی ہے۔ ہمیں سندھی اور بلوچ بننے کے بجائے قومی شعور و فکرسے بیگانہ کررہا ہے۔ ہمیں اپنے فطری رگ و ریشوں سے دور کر رہا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جب تک قوموں سے ان کی قدارنہیں چھین لیے جائیں گے تب تک ان پر راج کرنا مشکل ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان اور سندھ استحصال کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان ہماری قدرتی گیس اور دیگر وسائل سے چل رہا ہے لیکن سوئی جہاں سے گیس نکلتا ہے، وہاں کے باسی آج بھی لکڑیاں جلا رہے ہیں۔ سندھ کا بھی یہی حال ہے۔ 19 جولائی 1948 کو گورنر جنرل کے حکم پر کراچی اور اس سے ملحقہ علاقوں پر مشتمل 812 مربع میل مرکزی حکومت کے حوالے کردیا گیا۔ سندھی لیڈروں نے نام نہاد بانی پاکستان محمد علی جناح سے ملاقات کرکے اس کی زبردست مخالفت کی لیکن آج کی طرح اس وقت بھی رویہ یہی تھا اور کہا گیا کہ اس سے سندھیوں کوفائدہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جب مہاجرین کی جم غفیرنے تقسیم کے بعد واہگہ بارڈر سے پاکستان کارخ کیا تو اہل پنجاب اور طاقت کے اصل مراکز نے انہیں سندھ کا راستہ دکھایا۔ اس سے سندھی کی ڈیموگرافی شدید متاثر ہوئی اور جعلی دعوؤں اور جعلی کاغذات کے ذریعے ان مہاجرین کو زمینوں سے نوازا گیا۔ اس کے بعد افغان جنگ سے لاکھوں مہاجرین کراچی میں آکربسے۔ جب پاکستانی فوج نے پشتون وطن، شمالی وزیرستان اور سوات پر حملہ کیا تو لاکھوں لوگوں نے کراچی کا رخ کیا۔ وہ کسی بندوبست کے بغیر پورے شہرمیں پھیل گئے اور شہر کی ڈیموگرافی مزید پیچیدہ ہوگئی۔ کراچی اُس وقت ایک بلوچ اور سندھی شہر تھا لیکن آج یہ دونوں قوم حاشیے پرچلے گئے ہیں۔ کوئی ان کا پُرسان حال نہیں۔
حسن دوست بلوچ نے کہا کہ آج ملٹی نیشنل کمپنیاں بلوچستان اورسندھ کی سرزمینوں پر حملہ آور ہیں۔ اصل میں پاکستان بھی خود ایک کمپنی ہے جس کا کام قوموں کی استحصال اور لوٹ مار ہے لیکن فرق صرف یہ ہے کہ اس کمپنی کو ایک ریاستی فوج کا نام دیا گیا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستانی فوج اعلانیہ طور پر ملٹی بلین ڈالر کے پروجیکٹ کے مالک ہیں۔ اس کے علاوہ تمام سرکاری منصوبے فوج کے مرضی ومنشا سے چلتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چین پاکستان اکنامک کویرڈور (سی پیک) نے بلوچستان میں ناکامی کے بعد سندھ کا رخ کیا ہے اور مرکزی دفتر گوادر سے کراچی منتقل کیا گیا ہے۔ لیکن مجھے امید ہے کہ سندھی مزاحمت انہیں وہاں بھی پلنے کا موقع نہیں دے گا۔
حسن دوست بلوچ نے مزید کہا کہ فیڈریشن تمام یونٹوں کے باہمی اتفاق اوربرابری سے چلتے ہیں اور حق خود اختیاری کے تحت شامل اور الگ ہوتے ہیں لیکن پاکستان صحیح معنوں میں نہ تو کوئی فیڈریشن ہے اورنہ ہی جمہوری وفاق بلکہ یہ بالادست پنجابی ریاست ہے جس نے مختلف قوموں کو محکوم بناکر اپنا دائمی غلام بنا کر رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک سندھ کی حق خودارادیت کا تعلق ہے تو بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) اس کا بھرپور حمایت کا اعلان کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس خطے سے انگریز کی انخلا کے بعد صرف ایک ہی سیکورٹی رسک ہے اور وہ کوئی اورنہیں بلکہ پاکستان ہے۔ پاکستان نے اپنی قیام کے سات مہینے بعد آزاد بلوچستان پرقبضہ کرکے اپنی توسیع پسندی کا آغاز کر دیا۔ تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ رسہ کشی اورعالمی طاقتوں کو اس خطے میں کھینچ لانے اور ان کا کرایہ دار بننے کے لیے اس ریاست نے کبھی کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ آج ہمارے وطن ہمارے لیے دوزخ بن چکے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں اپنی اپنی لڑائیاں خود لڑنی ہیں لیکن اگر ہم ایک دوسرے کے دست و بازو بنیں گے تو ہمارا کام قدرے آسان ہوگا۔
حسن دوست بلوچ نے کہا کہ جس طرح بلوچ اور سندھی آزادی کے واضح ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ دیگر مظلوم اقوام بھی اپنی قومی تقدیر کا مقدمہ اپنے ہاتھوں تعمیر کا فیصلہ کریں۔ اس کام میں ہم جتنی دیر کریں گے، دشمن اس سے کہیں زیادہ تیزی سے ہماری زمین ، روایات اور وسائل پر حملہ آور ہوگا۔ دشمن جان چکا ہے کہ اس کی ریاست محض طاقت کے زور پر چل رہی ہے۔ ایک ایسی طاقت جو صرف عالمی طاقتوں کی امداد کے سہارے چل رہا ہے۔ بین الاقوامی طاقتوں کے مفادات کبھی بھی یکساں نہیں رہتے ہیں۔ ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ جب کوئی قوم پہلے سے واضح ایجنڈہ کے ساتھ تیار ہوگا تو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ قوم بین الاقوامی سطح پر پیش آنے والے اتار چڑھاؤ سے ضرور فائدہ اٹھانے کے قابل ہوگا۔ بصورت دیگرحالات میں ہوشربا تبدیلیاں ہماری غلامی اور محکومیوں میں مزید اضافہ کرے گا۔