بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی قیادت میں قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5197 دن ہوگئے۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او کے سابقہ جنرل سیکٹری ماما عظم، بی ایس او کے نو منتخب عہدیداران چئیرمین بالاچ قادر اور جنرل سیکٹری صمند بلوچ، مقبول بلوچ، عمر نزیر بلوچ شریک تھے۔
کیمپ آئے وفد سے گفتگو میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا آج ہم ایک پھر اپنی پرانی روش کی طرف لوٹ رہے ہیں جہاں سے ہماری شروعات ہی ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے، انا کی پرورش ذاتی پسند نا پسند کے خول میں رہنے، شعور کی جگہ پر اپنا فیصلہ ٹھوسنا ہی تھا۔ بلوچ اپنے پاک لہو سے سڑکیں بیابان اور گلیوں کو سرخ کر رہے ہیں مائیں اپنے جوان سال بیٹوں کو زمین کی دفاع کے لئے کٹ مرنے کی تربیت دے رہے ہیں، بوڑھے والدین اپنے جوان بیٹے کی میت کو کندھا دے رہے ہیں، ہزاروں بچے یتیم ہوچکے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں بچوں کے باپ بہنوں کے بھائی زندہ درگور ہیں، پتہ نہیں کتنی عورتیں بیوہ ہوچکے ہیں یا کچھ اور جن کے شوہر کئی سالوں سے جبری لاپتہ ہیں، وہ لاشیں جو بیابانوں میں بے گور کفن پڑی ہیں ہم سے کیا مانگ رہے ہیں ہم کیوں بھول چکے ہیں کہ انہوں نے اپنے حصے کا فرض ادا کیا ہے اب ہمیں کچھ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہماری اناپرستی پسندانا پسند قبائلیت ہیروازم اور غیرشعوری عمل نے چراغ کو بھجانے کے لیے آندھی اور طوفان کی نذر کی ہے آج ہم ہزاروں بلوچ فرزندوں کی مسخ شدہ لاشوں یا عکسوں کو دیکھتے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ کل ہم فخر کرتے تھے تو آج دل خون کے آنسوں روتا ہے میرے کاروان کے دوست موت کی نیند سوگئے بلوچستان کی سنگلاخ پہاڑیں خون میں نہا گئیں بلوچستان کے فرزند اپنے ہی وطن میں بھوک سے مر رہے ہیں۔