کانبھو!اس کے نام سے دیس کی ہوائیں حاملہ ہو جا تی ہیں ۔ محمد خان داؤد

164

کانبھو!اس کے نام سے دیس کی ہوائیں حاملہ ہو جا تی ہیں
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ

وہ کتابیں کم انسان زیادہ پڑھتا تھا،شاید وہ چہرہ شناس بھی ہو
اگر وہ چہرہ شناس نہ بھی ہو جب بھی وہ آدمی شناس ضرور تھا،
وہ انسانوں میں گھرا رہتا،پر کتابیں چاہتی تھی کہ وہ اس کے ہاتھوں کا لمس محسوس کریں اس کے ہاتھوں میں ہمیشہ وہ ہا تھ رہتے جن ہاتھوں کو دنیا نے تیاگ دیا تھا۔

وہ خواب لیے بستی بستی پھرا،کچھ خواب آنکھوں سے نکل کر بستی میں پہنچے اور کچھ خواب نینوں کے ساتھ مٹی بُرد ہوئے۔خواب بھری آنکھوں کا یوں مٹی بُرد ہونا دھرتی کو بھی بے چین کر جاتا ہے۔اور دادو کی مٹی بہت بے چین ہے۔محسوس ہوتا ہے اس کی خواب بھری آنکھیں سُرخ گلاب بن کر دادو کی سنگلاخ دھرتی پر نمودار ہونگی اور کہیں گی”کوئی ہے جو مجھے اپنے ماتھے پر سجا لے؟“

اس کے ہاتھ ہمیشہ کتابی مہندی سے بھرے رہتے،وہ جہاں بھی جاتا کتاب کو بچوں کی طرح اس کا دامن تھامیں ساتھ ساتھ چلتے،پر وہ کتابی باتوں والا انسان نہ تھا۔وہ قول وقرار والا انسان تھا۔اس کا دل دھرتی کے غریب انسانوں اور پاندھ(دامن)دھرتی سے بندھا ہوا تھا۔اس پر خواب بارشوں کی طرح برستے اور وہ صبح نیند سے بیدار ہوکر اپنے کامریڈ ساتھیوں کا فون کرتا اور رات کو نیند میں دیکھے خواب کا ذکر کرتا۔ایسی آنکھوں میں خواب آپ ہی وحی بن کر اتر آتے ہیں اور آنکھوں کی پلکنیں تھام کر خواب گر سے کہتے ہیں ”ہم سچ میں بدلے!“پھر جو ان خوابوں کو سچ میں بدلتے ہیں وہ یا تو لطیف بن جا تے ہیں یا کامریڈ!
وہ لطیف کا پیرو کار کامریڈ تھا
تھوڑا سا بیت جیسا تھوڑا سا نظم جیسا
وہ لطیف کا کامریڈ پیرو کا ر تھا
تھوڑا سا ساز جیسا،تھوڑا سا سُر جیسا
وہ لطیف کا کامریڈ پیرو تھا تھوڑا سا تمر جیسا،تھوڑا سا سندھ جیسا
وہ ساز بن کر دھرتی پر بجا اور سُر بن کر دفن ہوگیا۔پر سندھ چاہتا تھا کہ وہ ساز سُر میں ڈھل کر نگری نگری بپہنچے۔ایسا پہنچے جس کے لیے ایاز نے کہا تھا کہ”مٹی ماتھے لاھیان مان!“اس نے اپنے حصے کی مٹی سے سُر جوڑے اور پو ری شدت سے بجائے بھی
اور جو مٹی رہ گئی اس کا کیا؟
اور جو سُر بچ گئے۔ان سُروں کا کیا؟
پر سندھ پر ماتمی دھن اب بھی بج رہی ہے کہ وہ سُر کیوں دفن ہوگیا جس سُر کو دادو کی گلیوں سے نکل کر ٹھٹہ کی گلیوں تک پہنچنا تھا اور دولا دریا خان کو بتانا تھا کہ”سائین جو سُر آپ بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے میں اُن سروں میں نیا ساز بھر لایا ہوں!“
جب ایسے ساز دفن ہو جاتے ہیں تو احتجاجاً پنکھ چہچانا چھوڑ دیتے ہیں
سورج سے گرمی ختم ہو جا تی ہے
دریا اپنی دہشت چھوڑ دیتا ہے
چاند پہاڑوں میں اُوندھے میں گرپڑتا ہے
مچھلیاں پانی میں اداس رہتی ہے
پھولوں سے خوشبو ختم ہو جا تی ہے
تتلیاں احتجاجاً کانٹوں پر جا بیٹھتی ہیں
مزار ویران ہو جا تے ہیں
مزاروں پر موجود کبوتر جنگلوں میں نکل جا تے ہیں
اور دھرتی سو سالہ ماتم کا اعلان کرتی ہے
کیوں کہ خوابوں کا مر جانا آسان نہیں۔پر کچھ روز پہلے سندھ میں ایسا ہی ہوا۔جب سوچنے والا دل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رُک گیا اور سندھ نے بس اس بے حس و حرکت جسم کو دیکھا جو کراچی کی گلیوں کو روندتا ہوا دادو پہنچا اور خاموشی سے پتھریلی مٹی میں دفن ہو گیا
ان آنکھوں کے دفن ہونے کے بعد سندھ سوچ رہا ہے کہ اس منصور جیسے باغی کا جیون بس اتنا سا تھا کہ”چاند طلوع ہو اور پہاڑوں کے پیچھے دفن ہو جائے؟“
پر سندھ مڑ کر اپنی آنکھیں پونچھ کر آپ ہی جواب دیتا ہے کہ”وہ مٹی یوں ہی نہیں تھی وہ مٹی ایسی تھی جس سے بولینڈو بنتا ہے اور پو رے سندھ کو اپنے واس سے بھر دیتا ہے۔وہ مٹی یوں ہی نہ تھی۔وہ مٹی ایسی تھی کہ اس خاک پر کبھی نہ کبھی لطیف کا گزر ضرور ہوا ہوگا کہ وہ مٹی سُروں سے پُر تھا۔وہ مٹی ایسی نہ تھی،وہ مٹی ایسی ضرور تھی جس مٹی کو شاہ عنایت کے ہاتھوں نے چھووا تھا۔وہ مٹی ایسی نہ تھی،وہ مٹی کارونجھر کے کور کی تھی۔وہ مٹی سندھو لپ تھی۔وہ مٹی مہندی کے پھولوں کے درمیاں کی تھی جو مٹی مہندی کے پھولوں کو رنگوں اور خوشبوؤں سے بھر دیتی ہے۔وہ مٹی ایسی تھی جس مٹی سے محبت کے واعدے کیے جا تے ہیں۔وہ مٹی ایسی تھی جس پر عاشق شہید ہونے پہ فخر محسوس کرتے ہیں۔یہ مٹی بلاول کے گھانے کی مٹی تھی جس سے گھانے کی آواز اب بھی آتی ہے
چی کٹھ چی کٹھ چی کٹھ چی کٹھ۔۔ل
وہ مٹی دولہا دریا خان کی مٹی تھی۔وہ مٹی مکلی کے آخر شہید کی تھی جس کے مزار پر اب کوئی نہیں آتا
جس مٹی کو پھر سے گوندھ کر وہ وجود بنا جو کانبھو خان کا وجود تھا
جس مٹی میں شہیدوں کا لال لہو ہو وہ مٹی خاموش ہو کر بیٹھ جائے اس سے بڑی کوئی گالی نہیں
وہ دھرتی کے عاشقوں کے لبوں کی آخری دعا تھا
وہ محبوبہ کے ہونٹوں کی سُرخی تھی
جب بھی دھرتی کی حسین ترین لڑکیاں اس کا نام اپنے لبوں سے لے گیں
”کانبھو!!!“
تو ان کے لب لال سُرخی سے بھر جائیں گے
اس کے نام سے تو دیس کی ہوائیں حاملہ ہوجاتی ہیں
بادل بچے جنتے ہیں
کونجیں اپنے بچوں کے نام اس کے نام پر رکھتی ہیں
اور بارشیں چھما چھم برستی ہیں
وہ خواب آنکھوں والا کانبھو خان مہندی کی خوشبو بن کر دیس کی دوشیزہ کے ہاتھوں پر بکھر گیا ہے!
ناتمام!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔