چین پاکستان سے اپنے شہریوں کے تحفظ کی ‘ضمانت’ کیوں مانگ رہا ہے؟

629

چینی صدر شی جن پنگ نے وزیرِ اعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ سے اپنی حالیہ ملاقات میں ایک بار پھر پاکستان میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کے تحفظ اور ان کی سلامتی کو یقینی بنانے پر زور دیا ہے۔

چینی صدر کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ پاکستان چینی اداروں اور اہل کاروں کے تحفظ کی ضمانت دے گا۔

چینی صدر کا یہ بیان اس لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے کیوں کہ حالیہ عرصے میں پاکستان میں چینی شہریوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

چین کی جانب سے حملوں میں ملوث گروپوں کے خلاف سخت کارروائی کا تو مطالبہ کیا جاتا رہا ہے لیکن اس سے قبل اس حوالے سے کوئی ضمانت مانگنے کا بیان کبھی سامنے نہیں آیا۔

ماہرین کے مطابق اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چینی قیادت اپنے شہریوں کے تحفظ کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند ہے جو پاکستان میں چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کے کئی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔

ان منصوبوں میں سڑکوں کی تعمیر، توانائی اور آبی منصوبے، نیوکلیئر توانائی کے منصوبوں، فوجی نوعیت کے پراجیکٹس اور دیگر نجی اداروں میں کام کرنے والے چینی باشندے بھی ہیں جو زیادہ تر تیکنیکی نوعیت کے کاموں سے منسلک ہیں۔

‘چین کے سیکیورٹی تحفظات کی وجوہات بالکل واضح ہیں’

تجزیہ کار اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا کا کہنا ہے کہ چین کے اپنے شہریوں کے سیکیورٹی تحفظات کی وجوہات بالکل واضح ہیں۔

اُن کے بقول پاکستان میں چینی شہریوں پر کئی جان لیوا حملے ہوئے ہیں اور ان کے لیے ایسے منصوبوں پر کام کرنا کافی مشکل ہو گیا ہے۔

محمد عامر رانا کہتے ہیں کہ کراچی یونی ورسٹی میں حملہ ہو یا پھر داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کی بس پر حملہ ہو، یا اس نوعیت کے دیگر واقعات پر چین نے گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔

جولائی 2021 میں اپر کوہستان کے علاقے داسو میں ڈیم کی تعمیر کے دوران دہشت گردی کا ایک واقعہ پیش آیا تھا۔

اس حملے میں ڈیم کی تعمیر پر کام کرنے والے نو چینی انجینئرز سمیت 13 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔

گزشتہ برس 26 اپریل کو جامعہ کراچی میں چینی ثقافت اور زبان سکھانے والے ادارے کے باہر خودکش دھماکے میں تین چینی اساتذہ اور ایک پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہو گئے تھے۔ دھماکے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی(بی ایل اے) نے قبول کی تھی۔

محمد عامر رانا کا مزید کہنا ہے کہ ایسی صورتِ حال میں پاکستان پر زیادہ ذمے داری ہے کہ وہ چینی شہریوں کو مکمل تحفظ فراہم کرے۔

اُن کے بقول پاکستان نے چین سے مختلف منصوبوں میں ادائیگیوں سے متعلق جو وعدے کر رکھے ہیں انہیں بھی پورا کرنا ہے۔ اسی طرح چین کے تعاون سے چلنے والے کئی منصوبوں میں بیورو کریسی کی جانب سے حائل رکاوٹوں کو دور کرنا بھی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ عام طور پر چین کی جانب سے انہیں تین بڑے تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اور اگر ان تحفظات کو دور کر لیا جاتا ہے تو پاکستان میں چین مزید سرمایہ کاری کے لیے بھی راضی ہو سکتا ہے۔

‘چین مخالف طاقتیں پاکستان میں چینی منصوبوں سے خائف ہیں’

سیکیورٹی تجزیہ کار امتیاز گل کہتے ہیں کہ پاکستان میں مختلف قوتوں کی پراکسی جنگ جاری ہے اور وہ ایسے عناصر کی جانب سے بھڑکائی جار ہی ہے جو چین مخالف ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ چینی صدر کی یقینی طور پر یہ خواہش ہے کہ یہاں کام کرنے والے ان کے شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ لیکن ایک ایسا ملک جو مختلف تنازعات میں گھر اہوا ہے اس میں ہر شخص کو سیکیورٹی فراہم کرنا کافی مشکل کام ہے۔

لیکن اس کے باوجود پاکستان اس حوالے سے بھرپور کوشش کررہا ہے۔ مگر ان چیلنجز کے باوجود چین اس بارے میں پر عزم نظر آتا ہے کہ وہ پاکستان کو اکیلا نہیں چھوڑے گا اور سی پیک سے متعلق منصوبے جلد مکمل کیے جائیں گے۔

اگست میں گوادر میں چینی باشندوں کو نشانہ بنایا گیا تاہم خوش قسمتی سے اس واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ لیکن حملے میں ملوث دو ملزمان ہلاک کیے جانے کا دعویٰ کیا گیا۔

اس سے قبل گوادر، کراچی، داسو اور دیگر علاقوں میں بھی حملے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں کام کرنے والے چینی باشندوں کو بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے کئی بار کھلی دھمکی دی جاچکی ہے جس میں انہوں نے بلوچستان میں چینی باشندوں کو کام کرنے سے منع کر دیا ہے۔

دوسری صورت میں انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ ان بلوچ علیحدگی پسندوں کا خیال ہے کہ چین اس طرح بلوچ سرزمین پر قبضہ کرنے کو کوشش کر رہا ہے۔

‘چین قابلِ اعتماد شراکت دار اور بہترین دوست ہے’

ادھر پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق چینی صدر اور وزیرِ اعظم کے درمیان ملاقات کے دوران باہمی روابط مزید بنانے پر زور دیا گیا۔

وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان اور چین قابل اعتماد شراکت دار اور بہترین دوست ہیں۔

دونوں رہنماؤں نے سی پیک کی تعمیر کے نئے دور کی رفتار کو ترقی، روزگار، جدت اور گرین ڈیولپمنٹ کی راہداری بنانے کے لیے کلیدی قرار دیا۔

وی او اے کی اس رپورٹ کو بغیر کسی ترمیم کے ٹی بی پی پر شائع کیا گیا، ضروری نہیں ان خیالات و آراء سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔