پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں جنوری سے لے کر اب تک فورسز اہلکاروں کی ہلاکتیں آٹھ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔
اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے کم از کم 386 اہلکاروں کو کھو دیا، جن میں 137 فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ یہ رواں سال کے پہلے نو مہینوں میں آٹھ سال کی بلند ترین سطح ہے۔
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) کی ہفتے کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2021 میں کابل میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد، پاکستان نے خاص طور پر اپنے دو مغربی صوبوں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں انتہا پسندانہ حملوں میں اضافہ دیکھا۔ تشدد میں حالیہ اضافہ گزشتہ سال نومبر میں حکومت اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان ایک عارضی جنگ بندی کی وجہ سے بھی ہوا۔
یہ رپورٹ بلوچستان اور شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں خود کش حملوں میں ہونے والی کم از کم 69 ہلاکتوں کے ایک دن بعد شائع کی گئی ہے، حالیہ دنوں میں ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری کسی بھی عسکریت پسند تنظیم کی جانب سے قبول نہیں کی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستانی فورسز اہلکاروں نے 2023 کے پہلے 9 مہینوں میں کم از کم 386 اہلکار کھوئے، جو کہ تمام ہلاکتوں کا 36 فیصد ہے جبکہ ان میں 137 فوج اور 208 پولیس اہلکار شامل ہیں جو کہ آٹھ سال کی بلند ترین سطح ہے۔
سی آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں پاکستان کے دو مغربی صوبوں میں تشدد میں مسلسل اور تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ افغانستان کی سرحد سے متصل پاکستان کے دو صوبوں میں ہونے والی اموات میں سے 92 فی صد رپورٹ کی گئیں۔
فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے جاری کردہ بیانات کی مدد سے وی او اے کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق فوج نے رواں سال اب تک 214 فوجیوں اور افسران کی دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں اور دہشت گردوں کے حملوں میں ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
رواں ہفتے جمعے کو ہونے والے دہشت گرد حملے حالیہ مہینوں میں ملک میں ہونے والے سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملوں میں شامل تھے۔
بلوچستان کے ضلع مستونگ میں پیغمبرِ اسلام کے یوم پیدائش پر ہونے والے جلوس میں خود کش حملہ کیا گیا۔