وہ انتظار، بس انتظار ہی رہا
تحریر: حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ
ہماری تقریباً ہر دوسرے یا تیسرے ہفتے فون پر بات چیت ہوا کرتی تھی، وہ میسج کرتے کہ سنگت بات ہوسکتی ہے، تو میں ہاں میں حامی بھرتا اور پھر ہم کم از کم کبھی آدھہ کبھی ایک گھنٹہ مختلف ٹوپکس پر ڈسکشن کرتے۔ ان ڈسکشنز کے شروعاتی دو سے تین منٹ، اپنی ذاتی ذندگی مصروفیات، پریشانیاں، کامیابیاں، ناکامیاں، اونچ، نیچ، صحت، تعلیم، نوکری اور دیگر مسائل پر گفتگو ہوتی اور پھر ایک مسکراہٹ سے ان تمام موضوعات کو پس پُشت رکھ کر، بلوچ، بلوچی، بلوچ قومی جدوجہد، بلوچ سیاست، بلوچ مزاحمت، بلوچ مسلح جدوجہد، بلوچ سیاسی پارٹیوں کا موجودہ تحریک میں کردار، آنے والے دنوں میں پیش آنے والی سختیاں، بدلتے عالمی و علاقائی صورتحال، سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبریں، عالمی سطح بلوچوں کی نمائندگی، بلوچوں کا موثر میڈیا اور دیگر بہت سے موضوعات پر تبصرہ کرتے، بحث کرتے، ایک دوسرے کی آراہ کو بغور سُنکر اس پر علمی بنیادوں پر متفق ہوتے وگرنہ اپنا نقطہ نظر رکھتے۔
یہ کہانی، یہ رابطہ، یہ گفتگو، یہ فون کال، یہ تبصرات، یہ اظہار خیالات، یہ تنقید اور خود تنقیدیوں کا سلسلہ کم از کم گیارہ سالوں تک جاری رہا۔ اس دوران کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا تھا کہ راقم کی سست رویوں کے سبب ہماری گفتگو ہر ہفتہ، یا کچھ ہفتوں کے بجائے کچھ مہینوں بعد ہوتی۔
مگر جب بھی گفتگو ہوتی تو ان میں کہانی، نوحہ، قصہ، افسانہ سب کے سب قومی جدوجہد، بلوچ اور بلوچستان ہوتے۔ گزرے ہفتے کے دن دو ہفتوں کا عرصہ اس امید پر گزرگئے کہ اب میسج آئیگا کہ سنگت بات ہوسکتی ہے، اور میں ہاں کہہ کر اپنے دوست، استاد، رہنماء ؤ سیاسی سنگت سے کچھ سیکھ سکوں، وہ دوست جو علم ؤ دانش کا زیور ہوتے ہوئے بھی ہماری کمزور دلائل اور باتوں کو نہ صرف سُنتے بلکہ اُن پر عمل کرتے ہوئے اپنے خیالات، تجزیات کو تحریری صورت میں قوم کے سامنے رکھتے۔
ہمارے رابطوں کا سفر چودہ اکتوبر کو اس وقت منقطع ہوا، جب اس امید پر آغاز صبح ہوئی کہ آج کامریڈ گلاب (شہزادہ گلاب) سے گفتگو کرکے علاقائی ؤ عالمی سیاسی صورتحال پر بحث کرتے ہوئے اسرائیل فلسطین تنازعہ پر انکی آراہ سُنکر اس سے کچھ سیکھنے کی کوشش کرینگے۔ بہت سے سوالات ذہن میں گردش کررہے تھے، جن میں اسرائیل فلسطین تنازعہ پر عالمی برادری کا ردعمل، فلسطینی رہنماوں کے بیانات، انٹرویوز سمیت یورپی اور امریکن منقسم عوام اور رہنماوں کے بیانات۔
خیر بہت سے سوالات، بہت سے خیالات ذہن میں گردش کررہے تھے، اور ان تمام سوالات کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اگر فلسطین کی موجودہ صورتحال کے کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچستان کو پرکھا جاتا، فرضی طور پر مان لیتے کہ بلوچ تنظیموں کی جانب سی اسی سطح کا کوئی مہلک حملہ کیا جاتا، تو کیا بلوچ آزادی پسند سیاسی رہنماوں کا مؤقف، انکے بیانات، انکے تجزیات اسی طرح کے دوٹوک ہوتے ؟ کیا وہ صرف ایک واقعے پر تجزیہ کرتے ردعمل دیتے یا پھر اس بڑھکر، تمام تر پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر زمینی حقائق اور بنیادی قومی سوال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا موقف، اپنا بیانیہ اپنے تجزیات سے دنیا کو آگاہ کرتے؟ یا پھر ہمیشہ کی طرح ہمیں ایک منتشر اور کنفیوز سیاسی ماحول دکھائی دیتا، جہاں سوشل میڈیا پر غیر سیاسی بیانات سے سیاسی ماحول میں الجھن پیدا کی جاتی اور دنیا کے سامنے اپنے جدوجہد کی تشہیر کرنے اور بلوچ قومی سوال کے تاریخی پہلو سے دنیا کو آگاہی دینے کے آپس میں دست گریبان ہوتے؟
لیکن چودہ اکتوبر کی صبح کو کچھ اور ہی مقصود تھا، وہ صبح تجزیات، خیالات، سیاست، ادب، دانشوروں کے کردار، جنگ، مزاحمت سے بہت دور ایک الگ امتحان لیے کھڑا تھا، اس روز ایک ایسا زمین زادہ اپنی دھرتی اور لوگوں سے دور ہورہا تھا جس کے علمی تجزیات اور تجربات سے بلوچ قوم اور قومی تحریک ہمیشہ فیض یاب ہوتی رہیگی۔ کامریڈ گلاب کی جدائی سے جہاں ایک سیاسی اور علمی خلا پیدا ہوا ہے۔ وہیں انکا ہم سے جسمانی طور پر بچھڑنا ذاتی طور پر ایک انتہائی تکلیف دہ ہے، کامریڈ گلاب ایک سیاسی ساتھی سے بڑھکر، ایک شفیق دوست اور بڑے بھائی کی اہمیت رکھتے تھے۔ یہ کامریڈ گلاب کی سنگت کا ہی نتیجہ ہے جس نے راقم کو پڑھنے اور تحریر کرنے کی جانب راغب کیا۔ وہ ہمیشہ کہتے کہ ہمیں اپنا مؤقف، اپنا بیانیہ، اپنے تجزیات، اپنے خیالات، اپنی قوم کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔
وہ خود اس ہنر میں ماہر ہوتے ہوئے بھی ہماری نامکمل اور کمزور تحریروں کو سراہتے اور ہمیں لکھنے کا حوصلہ فرائم کرتے۔ کامریڈ گلاب کی باتیں، انکے خیالات اس قدر معلوماتی اور پُر معنی ہوتیں کہ انسان اُن باتوں سے بے شمار تحریریں، افسانے لکھ سکتا تھا۔
یقیناً کامریڈ گلاب جیسے دانشور کے بچھڑنے کے غم کو بہترین انداز میں بیان کرنا انکے عمل کو تقویت دینا ہے۔ انکے مسلسل جدوجہد کو آگے بڑھانا جس میں پڑھنا، لکھنا، آگے بڑھنا، اپنے قوم سے قربت رکھنا، انسانیت اور انسانی آزادی ؤ برابری پر ایمان رکھنا۔ ظالم اور جابر کیخلاف آواز اٹھانا اور اپنے اصولی مؤقف پر ہمیشہ ثابت قدم رہنا ہی کامریڈ گلاب کی زندگی اور انکے جدوجہد کے اعتراف میں بہترین سلامی اور خراج عقیدت ہوسکتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔