مستونگ کا المناک واقعہ – ٹی بی پی اداریہ

280

مستونگ کا المناک واقعہ
ٹی بی پی اداریہ

انتیس ستمبر کو مستونگ میں ایک المناک واقعہ وقوع پذیر ہوا، عید میلاد النبی کی جلوس پر الفلاح مسجد کے قریب ایک خودکش حملہ کیا گیا جس میں پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور چالیس سے زائد زخمی ہیں، ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ حملے میں زخمی کئی افراد کی حالت تشویشناک ہے۔

بلوچ انٹلجنسیا کا دعویٰ ہے کہ بلوچ تحریک آزادی کو ختم کرنے کے لئے پاکستانی فوج نے بلوچستان میں مذہبی انتہا پسندی کا بیج بویا ہے اور انہیں منظم کرنے ؤ پھیلانے کی کوششیں کررہا ہے۔ بلوچ دانشور اور انسداد دہشتگری کے تجزیہ کار متواتر اس خدشہ کا اظہار کررہے ہیں کہ مذہبی انتہا پسندوں کی پرورش سے بلوچ انسرجنسی کا راستہ نہیں روکا جاسکتا ہے لیکن اِن پالیسیوں سے پورا خطہ متاثر ہوگا۔

پاکستان مبینہ طور پر مذہبی انتہاپسندی کا جو بیج بلوچستان ؤ پشتون زمین پر بو رہا ہے اُس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔ ریاست پاکستان کی محکوم قوموں کے خلاف مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی نے ایسے حالات پیدا کئے ہیں جس سے بلوچستان میں متشدد مذہبی انتہا پسندی پنپ رہا ہے۔

مستونگ طویل عرصے سے مذہبی انتہا پسندوں کا گڑھ بنتا جارہا ہے۔ اس واقعے سے قبل دو ہزار اٹھارہ میں ایک خودکش حملے میں دو سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ ہزارہ کمیونٹی پر مسلسل اِن علاقوں میں حملے ہوتے رہے ہیں۔ ریاست اِن حملوں کو دوسرے ممالک سے منسلک کرکے ایسے المناک واقعات کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کچھ وقت کے بعد جعلی پولیس مقابلوں میں جبری گمشدہ افراد کو مار کر حملوں کے الزامات اُن پر تھونپ دیتا ہے۔

بلوچ انسرجنسی کو ختم کرنے کے لئے ریاستی پالیسیوں نے بلوچستان میں سیاسی اداروں کو کمزور کیا ہے، جس سے مذہبی انتہا پسندی کو روکنے کے لئے مضبوط سیاسی قوت وجود نہیں رکھتا ہے، ان حالات میں قوم پرست اور آزادی پسند اداروں کی زمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں کہ وہ سیاسی محاذ کو بہتر خطوط پر استوار کرکے پالیسیاں مرتب کریں جس سے بلوچ سماج میں انتہا پسندی کو روکنے کے لئے سیاسی تحریک منظم کیا جاسکے۔