مالدیپ: چین کے حامی صدارتی امیدوار کامیاب، بھارت کو کیا چیلنج در پیش؟

201

مالدیپ میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں حزبِ اختلاف کے امیدوار محمد معیزو نے موجودہ صدر ابراہیم محمد صالح کو شکست دے دی ہے۔ ابراہیم صالح بھارت کےحامی ہیں جب کہ محمد معیزو کا جھکاؤ چین کی جانب ہے۔

بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اتوار کو محمد معیزو کو ان کی کامیابی پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی مالدیپ کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو مضبوط اور بحرِ ہند میں مجموعی تعاون کو بہتر کرنے کے لیے پُر عزم ہے۔

خیال رہے کہ محمد معیزو نے ’انڈیا آؤٹ‘ ایجنڈے کے تحت اپنی انتخابی مہم چلائی تھی۔ وہ مالدیپ کے سابق صدر اور چین کے حامی رہنما عبد اللہ یامین کے جانشین ہیں۔

ابراہیم محمد صالح نے انتخابی مہم میں ’انڈیا فرسٹ‘ پالیسی اپنائی تھی۔وہ بھارت کے ساتھ مضبوط تعلقات کے حامی رہے ہیں۔

ان کے دور میں بھارت اور مالدیپ کے درمیان متعدد معاہدے ہوئے۔ انہوں نے ہی اپنے ملک میں بھارتی فوج کی محدود موجودگی کی اجازت دی تھی۔

نئی دہلی کے تجزیہ کار تازہ صورتِ حال کو بھارت کے لیے تشویش کا باعث قرار دیتے ہیں۔

سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کہتے ہیں کہ مالدیپ کے ساتھ بھارت کے صدیوں پرانے گہرے ثقافتی، نسلی اور سیاسی تعلقات رہے ہیں جس کا اظہار وزارتِ خارجہ کے بیانات سے بھی ہوتا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اسد مرزا کا کہنا تھا کہ بھارت مالدیپ میں اپنی موجودگی کے سبب بحرِ ہند کے کلیدی مقامات پر نگرانی رکھ سکتا ہے۔

ان کے بقول چین بھی مالدیپ میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ اگر مالدیپ میں بھارت کی ساکھ خراب ہوتی ہے تو چین کی حکمتِ عملی کے پیشِ نظر یہ اس کے لیے بہت بڑا نقصان ہوگا۔

وہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مالدیپ میں 2013 سے بھارت کے خلاف ایک مہم چل رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ چین بھی ہے۔ یامین حکومت نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے لیے رضامندی ظاہر کی تھی۔ انہوں نے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے چین سے قرض لینے بھی شروع کر دیے تھے۔

ان کے خیال میں مامون عبد القیوم کے سرگرم سیاست سے الگ ہو جانے کے بعد وہاں کے حالات بدل گئے ہیں۔ انہیں اندرا گاندھی کے ساتھ ناوابستہ تحریک کے بانی کے طور پر جانا جاتا تھا۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں ’انڈیا آؤٹ‘ مہم میں تیزی آگئی ہے۔ گزشتہ تین برس سے یہ مہم چلائی جا رہی ہے اور جب بھی بھارت کے خلاف کوئی بات ہوتی ہے تو سوشل میڈیا کی وجہ سے اس میں شدت پیدا ہو جاتی ہے۔

یاد رہے کہ بھارت اور مالدیپ دونوں ایک دوسرے کو اپنا گہرا دوست سمجھتے رہے ہیں۔

بھارت 2004 میں مالدیپ میں آنے والی سونامی اور 2014 میں آبی بحران کے موقع پر مدد کے لیے وہاں پہنچنے والا پہلا ملک تھا۔

سال 1988 میں حکومت کے خلاف ہونے والی بغاوت کے موقع پر بھی اس نے وہاں کی حکومت کی فوجی مدد کی تھی۔

بھارت مالدیپ میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مصروف ہے جب کہ اس نے مالدیپ کے شہریوں کو تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں سہولتیں بھی فراہم کی ہیں۔

نئی دہلی نے مالدیپ کے سیکیورٹی حکام کو انڈین ملٹری اکیڈمی میں ٹریننگ بھی دی ہے اور وہاں کے نوجوانوں کی بھارت میں تجارتی مواقع کی تلاش کے لیے حوصلہ افزائی کی ہے۔

بھارت نے مالدیپ کو 2010 میں دو لائٹ ہیلی کاپٹرز اور ایک چھوٹا جنگی طیارہ فراہم کیا تھا۔

مالدیپ کی ڈیفنس فورسز نے 2021 میں ایک بیان میں کہا تھا کہ مذکورہ طیارے کی دیکھ بھال کے لیے بھارت کے 75 فوجی جوان مالدیپ میں موجود ہیں۔

حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کی جانب سے بھارت کی فوج کی مالدیپ میں موجودگی کی مخالفت کی جاتی رہی ہے۔ وہ بھارتی سیکیورٹی اہلکاروں کے مالدیپ چھوڑنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

سابق صدر عبداللہ یامین نے بھارت سے ان ہیلی کاپٹروں کو واپس لینے اور فوجی اہلکاروں کو بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔

اپوزیشن نے اس معاملے کو مالدیپ کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کیا ۔ لیکن صدر محمد صالح نے اس الزام کی تردید کی تھی۔

اسد مرزا کے خیال میں مذکورہ ہیلی کاپٹرز کا مقصد قریبی بحری علاقوں میں سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن میں ان کا استعمال کرنا اور دور دراز کے مریضوں کو اسپتالوں تک لانا ہے۔

ان کے مطابق حزبِ اختلاف کی جماعتیں تنقید کرتی رہی ہیں کہ صالح حکومت نے بھارت کے ساتھ جو معاہدے کیے تھے ان کی تفصیلات پارلیمان کے سامنے پیش نہیں کیں۔ صرف صدارتی سطح پر فیصلہ کر لیا گیا۔ ان کو یہ اندیشہ ہے کہ بھارت ان معاہدوں کے تحت مالدیپ میں اپنا بحری اڈہ قائم کر سکتا ہے۔ اسی لیے وہاں بھارت کے خلاف عوامی جذبات ہیں۔

تجزیہ کار مانس جوشی کا کہنا ہے کہ چین بھی مالدیپ میں زبردست دلچسپی رکھتا ہے۔ وہ اس کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کا خواہش مند ہے۔ ایسے کسی بھی معاہدے سے چین کا ہی فائدہ ہوگا۔ کیوں کہ اس کی معیشت کا حجم 17 کھرب ڈالر ہے جب کہ مالدیپ کا پانچ ارب ڈالر ہے۔

ان کے مطابق محمد صالح نے چین کے ساتھ معاہدے کو سرد خانے میں ڈال رکھا تھا۔ لیکن اب محمد معیزو کے انتخاب کے بعد دونوں ملکوں میں آزاد تجارتی معاہدے کا قوی امکان ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ دو عشروں کے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ چین نے بھارت کے پڑوس میں اپنے اثر و رسوخ کو تیزی سے بڑھایا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بھارت کو چاہیے کہ وہ مالدیپ میں حالیہ پیش رفت کو کم تر نہ سمجھے ۔ سری لنکا کی بندرگاہ ہمبن ٹوٹا پر چین کی بالادستی کے بعد بھارت اپنے اثر و رسوخ والے آبی علاقوں میں چین کی بڑھتی اثر اندازی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

مالدیپ کے حزبِ اختلاف کے اتحاد ’پروگریسیو پارٹی آف مالدیپ‘ کے نائب صدر اور سری لنکا اور جاپان میں مالدیپ کے سابق سفیر محمد شریف مندھو کہتے ہیں کہ بھارت کو اس سلسلے میں فکرمند نہیں ہونا چاہیے کہ نئی حکومت نئی دہلی کے ساتھ دشمنی کرے گی۔

انہوں نے نئی دہلی کی نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ کے ساتھ ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں کہا کہ چین کے بارے میں جو خوف پھیلایا جا رہا ہے وہ غیر ضروری ہے۔

ان کے مطابق ہم بحر ہند کی سلامتی اور تحفظ پر بھارت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں اور ہم نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر بھارت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مالدیپ عالمی برادری میں بھارت کا ایک مضبوط اتحادی رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ تاریخی طور پر مالدیپ کے نو منتخب صدر کا پہلا غیر ملکی دورہ بھارت کا ہوتا رہا ہے اور یقینی طور پر ہم اس روایت کو جاری رکھیں گے۔

اسی کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نئی حکومت گزشتہ پانچ سال میں بھارت میں شروع کیے گئے منصوبوں کا جائزہ لے گی جس کا وعدہ محمد معیزو نے کیا ہے۔

ان کے بقول یہ افسوسناک بات ہے کہ حکومت نے بھارت کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کی تفصیلات پارلیمنٹ اور میڈیا کو بتانے سے انکار کیا تھا۔

ان کے مطابق اگر وہ معاہدے ہمارے آئین و قوانین کے مطابق اور قابلِ عمل ہوں گے تو ہم انہیں جاری رکھیں گے۔

تاہم انہوں نے بھارت کی جانب سے دیے جانے والے ہیلی کاپٹروں کے معاملے کو اس راہ کی رکاوٹ قرار دیا۔