لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مہم چلانے والے افغان سماجی کارکن مطیع اللہ ویسا کو جمعرات کو سات ماہ کی حراست کے بعد رہا کر دیا گیا۔
طالبان حکام کی جانب سے وہ رواں ماہ رہا کیے جانے والے تازہ ترین ہائی پروفائل قیدی ہیں۔
مطیع اللہ کے بھائی عطا اللہ ویسا کے مطابق غیر منافع بخش تنظیم ’پین پاتھ‘ کے بانی مطیع اللہ کو رواں سال مارچ میں تعلیم کے شعبے میں کام کرنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔
عطا اللہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ جمعرات کو سماعت کے بعد انہیں رہائی کی اطلاع دی گئی جس کے بعد وہ ’گھر واپس آ رہے ہیں۔‘
عطا اللہ کے مطابق انہیں فی الحال اپنے بھائی کی جسمانی صحت کے بارے میں علم نہیں۔
ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے پین پاتھ دیہاتوں میں عمائدین کو تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کرنے، تشدد کی وجہ سے بند لڑکیوں اور لڑکوں کے سکولوں کو دوبارہ کھولنے اور لائبریریوں کے قیام میں مدد کرنے کے لیے وقف ہے۔
اگست 2021 میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد سے خواتین کی تعلیم تک رسائی کو سختی سے محدود کر دیا گیا۔
نوعمر لڑکیوں اور خواتین کو سکولوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے سے روکا گیا اور ہزاروں خواتین اپنی سرکاری نوکریاں کھوچکی ہیں یا انہیں گھر پر رہنے کے لیے پیسے دیے جا رہے ہیں۔
لڑکیوں اور خواتین کو پارکوں یا جم میں داخل ہونے سے بھی منع کیا گیا ہے۔
لڑکیوں کے لیے ثانوی سکولوں پر پابندی کے بعد سے مطیع اللہ نے مقامی لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے دور دراز علاقوں کا دورہ جاری رکھا اور اپنی مہم جاری رکھنے کا عہد کیا۔
عطااللہ کے مطابق ان کے بھائی کو ’حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے الزام میں سات ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ پروپیگنڈا کیا تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ میں کس طرح کا ردعمل دوں، میں کل سے بمشکل سویا ہوں یا کھانا کھایا ہے کیونکہ میں ان کے کیس پر نظر رکھ رہا تھا۔‘
طالبان حکام نے فوری طور پر اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
اس گرفتاری پر اقوام متحدہ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ سفارت کاروں اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور اداکارہ انجلینا جولی جیسی اعلیٰ شخصیات نے بھی شدید احتجاج کیا تھا۔
ان کی رہائی سے کچھ عرصہ قبل لندن میں قائم سنسرشپ کے انڈیکس نے مطیع اللہ کو اظہار رائے کی آزادی کا ایوارڈ دیا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے فوری طور پر اس خبر کا خیر مقدم کرتے ہوئے حکام پر زور دیا کہ وہ خواتین کارکنوں زویلا پارسی اور ندا پروانی سمیت دیگر قیدیوں کو رہا کریں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کیا کہ افغانستان سے اچھی خبر ہے۔
مطیع اللہ کو لڑکیوں کے تعلیم کے حق کو فروغ دینے پر کبھی جیل نہیں جانا چاہیے تھا۔
افغانستان میں حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے اعلیٰ ماہر رچرڈ بینیٹ نے بھی ایکس پر اس خبر کا خیر مقدم کیا ہے۔