صدر بائیڈن کی مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی آباد کاروں کےانتقامی حملوں کی مذمت

92

صدر جو بائیڈن نے بدھ کے روز اسرائیل پر حماس کے سات اکتوبر کے حملوں کے بعد سے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی آباد کاروں کےانتقامی حملوں پر تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ دہائیوں سے جاری اسرائیل-فلسطین تنازعے کے خاتمے کے لیے دو ریاستی حل پر کام کرنے کے اپنے عزم کا پھر سے اعادہ کر رہے ہیں۔

بائیڈن نے کہا کہ “انتہا پسند آباد کاروں کے حملے حماس کے حملے کے بعد مشرق وسطیٰ میں پہلے سے جلتی ہوئی آگ پر “تیل چھڑکنے ” کے مترادف ہیں۔ “اسے روکنا ہوگا۔ ان کا احتساب ہونا چاہیے۔ اسے ابھی روکنا ہوگا،”

بائیڈن نے یہ بیان آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیز کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس کے آغاز میں دیا، جو واشنگٹن کے سرکاری دورے پر ہیں ۔

حماس کے حملے کے بعد سے فلسطینیوں کے خلاف آباد کاروں کے تشدد میں شدت آئی ہے اور فلسطینی حکام کے مطابق، آباد کاروں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ آباد کاروں نے کاروں کو نذر آتش کیا اور بدوؤں کی کئی چھوٹی کمیونٹیز پر حملہ کیا، جس سے وہ دوسرے علاقوں کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔

“ویسٹ بینک پروٹیکشن کنسورشیم” کے نام سے فعال غیر سرکاری تنظیموں اور یورپی یونین سمیت عطیہ دہندگان کے اتحاد کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کے بعد سے مغربی کنارے میں آباد کاروں کے تشدد کی وجہ سے سینکڑوں فلسطینی اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ غزہ سے حماس کے حملے کے بعدجب اسرائیلی فوج حماس کےعسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے مغربی کنارے میں ہلاکت خیز تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس تشدد سے دو ہفتے پرانی جنگ میں ایک اور محاذ کھل جانے کا خطرہ ہے۔

اس سے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ فلسطینی اتھارٹی پر دباؤ پیدا ہوتا ہے، جو مغربی کنارے کے کچھ حصوں کا انتظام کرتی ہے۔

یہ تنظیم فلسطینیوں میں بہت زیادہ غیر مقبول ہے، کیونکہ وہ سلامتی کے معاملات میں اسرائیل کے ساتھ تعاون کرتی ہے۔

بائیڈن نے ایک بار پھر حماس کے حملے کی بربریت کی مذمت کی جس میں 1,400 اسرائیلی ہلاک ہوئےتھے۔

امریکی صدر نے کہا کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حماس کا مقصد سعودی عرب سمیت اپنے کچھ عرب پڑوسیوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے کی امریکی قیادت میں کی جانے والی کوششوں کو ختم کرنے کی خواہش ہے۔

صدر نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل اور حماس کے تنازع کے خاتمے کے بعد اسرائیل، فلسطینیوں اور ان کے شراکت داروں کو دو ریاستی حل کے لیے کام کرنا چاہیے۔

بائیڈن نے کہا، “اسرائیلی اور فلسطینی یکساں طور پر تحفظ، وقار اور امن کے ساتھ شانہ بشانہ رہنے کے حقدار ہیں۔،”

بائیڈن نے مزید کہا، “جب یہ بحران ختم ہو جائے گا، تو آگے کیا ہو گا اس کا ایک وژن ہونا چاہیے۔ اور ہمارے خیال میں، یہ دو ریاستی حل ہو۔

حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں 6500 سے زیادہ فلسطینی اسرائیل کے حملوں میں مارے گئے ہیں۔ بائیڈن نے کہا کہ انہیں حماس کی بیان کردہ ہلاکتوں کی تعداد کے درست ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں۔

لیکن ساتھ ہی انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل کے لیے ضروری ہے کہ وہ شہریوں کی ہلاکتوں کو کم کرنے کے لیے اپنے ردعمل میں احتیاط سے کام کرے۔

انہوں نے کہا،”مجھے یقین ہے کہ بے گناہ مارے گئے ہیں، اور یہ جنگ چھیڑنے کی قیمت ہے۔”

بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے براہ راست یہ یقین دہانی نہیں مانگی ہے کہ یرغمالوں کی رہائی سے قبل اسرائیل غزہ پر متوقع زمینی حملے کو روک دے گا۔

“میں نے انہیں جو کہا ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہ ممکن ہو تولوگوں کو بحفاظت باہر نکالنا، انہیں یہی کرنا چاہیے۔ (تاہم)یہ ان کا فیصلہ ہے، “بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں نیوز کانفرنس کے دوران کہا۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق، اسرائیل اور حماس کی جنگ کے دوران تقریباً 10 امریکی لاپتہ ہیں۔