شہید مبشر ہوت ،شہید میرجان بلوچ ۔ ہوت بلوچ

330

شہید مبشر ہوت ،شہید میرجان بلوچ

تحریر: ہوت بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

یہ وہ دن تھا، جب بلوچ قوم کے دو گوریلا جنگجو بیٹے اپنے سر زمین کے گود میں سو گئے اور بلوچ قوم،  اور بلوچ سرزمین کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں۔

جن میں ایک شہید مبشر عرف شاہ دوست تھا۔ شہید مبشرجان کیچ تُربَت کے علاقے گوگدان میں واجہ رسول بخش کے گھر میں پیدا ہوئے ، بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے اور لاڈلے  تھے۔ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے گوگدان میں حاصل کی۔ شہید اپنی خوش مزاج اور زندہ دل شخصیت کے لیے جانے جاتے تھے۔

وطن کی محبت ان کے دل میں بچپن ہی سے تھا،اور بچپن سے ہی ان کو ریاست کے جبر کا اندازہ ہو گیا تھا۔ اس چنگاری کو آگ میں تبدیل کرنے کا کام ریاست نے بخوبی انجام دیا جب 2010 کو اُن کے گھر پر فوج نے حملہ کیا، اور ساری رات ان کے گھر پر فائرنگ ہوتی رہی، جس کی وجہ سے ان کا ایک بھائی اور بہن زخمی ہوگئے۔ اور دشمن فوج کے کئی اہلکار ہلاک زخمی ہوگئے تھے۔

2016 میں جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی تو ایسا محسوس ہوا کہ ہم ایک دوسرے کو بہت وقت سے جانتے ہوں اور اس پورے ملاقات میں ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اس ایک ملاقات نے ہمیں ایک دوسرے کے نزدیک کر دیا، اصل میں نزدیکی کی وجہ شہید مبشر کی خوش اخلاقی تھی۔ وہ مسکراہٹ تو اُس چہرے پر رہتا ہی تھا لیکن وقت کے ساتھ اُس مسکراہٹ  میں درد ، تکلیف نظر آنے لگی ، یہ درد و تکلیف بلوچ قوم اور بلوچستان کے مستقبل کی سوچ تھی ، بلوچوں پر تشدد کی سوچ تھی.

2016 کو ان ہاتھوں نے بندوق اٹھا لیا اور چار سال بعد 2020 کو بی ایل اے کے ساتھ جڑ گئے۔ تربت، زامراں، بلیدہ اور کلبر ان محاذوں پر دشمن پر شدید حملے کیے۔ بی ایل اے میں رہتے ہوئے انھوں نے براس کے ساتھ کاروائیوں میں حصہ لیا ۔

25 اکتوبر کو کلبر کے مقام پر جب دشمن فوج نے براس کے سرمچاروں کو گھیرے میں لیا تو مبشر ہوت اور میر جان نے آگے بڑھتے ہوئے دشمن کا گھنٹوں دو بہ دو مقابلہ کرتے ہوئے اور اپنے ساتھیوں کو صحیح سلامت وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے اور خود جام شہادت نوش کی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔